کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ہوا۔
ابرھہ بن اشرم آغازمیں اس عیسائی فوج کا سپہ سالار تھا جو شاہ حبشہ نے یمن کے حمیری نسل کے یہودی فرماں روا "یوسف ذونواس" کے عیسائیوں پر ظلم و ستم کا بدلہ لینے کو بھیجی۔
جس نے 525 عیسوی تک اس پورے علاقے پر حبشی حکومت کی بنیاد رکھ دی۔ ابرھہ بن اشرم رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بالآخر یمن کا خودمختار بادشاہ بن بیٹھا لیکن کمال چالاکی سے اس نے برائے نام شاہ حبشہ کی بالادستی بھی تسلیم کیے رکھی اور اپنے آپ کو نائب شاہ حبشہ کہلواتا رہا۔
ابرھہ ایک کٹر متعصب عیسائی تھا۔ اپنا اقتدار مضبوط کرلینے کے بعد اس نے عربوں میں عیسائیت پھیلانے کی سوچی جبکہ اس کا دوسرا ارادہ عربوں کی تجارت پر قبضہ جمانا تھا۔
اس مقصد کے اس نے یمن کے دارالحکومت "صنعاء" میں ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا۔ جسے عرب مؤرخین القلیس اور یونانی ایکلیسیا کہتے ہیں۔ اس کلیسا کی تعمیر سے اس کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو عیسائیت کی تبلیغ کرکے عربوں کے حج کا رخ کعبہ سے اپنے کلیسا کی طرف موڑنا تھا اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا کہ عربوں کی ساری تجارت جو ابھی تک خانہ کعبہ کی وجہ سے عربوں کے پاس تھی۔ وہ یمن کے حبشی عیسائیوں کے ہاتھ آ جاتی۔
ابرھہ نے پہلے شاہ جبشہ کو اپنے اس ارادے کی اطلاع دی اور پھریمن میں علی الاعلان منادی کرادی کہ "میں عربوں کا حج کعبہ سے اکلیسیا کی طرف موڑے بغیر نہ رہوں گا۔"
اس کے اس اعلان پر غضبناک ہوکر ایک عرب( حجازی) نے کسی نہ کسی طرح ابرھہ کے گرجا میں گھس کر رفع حاجت کرڈالی۔ اپنے کلیسا کی اس توہین پر ابرھہ نے قسم کھائی کہ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک کعبہ کو گرا نہ دوں۔
اس کے بعد سنہ 570 عیسوی کے آخر میں وہ 60 ہزار فوج اور 13 جسیم ہاتھی لیکر یمن سے مکہ پر حملہ آور ہونے کے ارادے سے نکلا۔ راستے میں دو عرب سرداروں نے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر شکست کھائی اور ابرھہ کسی طوفان کی طرح مکہ کے مضافاتی مقام "المغمس" میں پہنچ گیا۔
یہاں ابرھہ کے لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ جبکہ چند دستوں نے اس کے حکم پر مکہ کے قریب میں لوٹ مار کی اور اہلِ تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی بھی لوٹ لئے گئے جن میں مکہ کے سردار اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب بن ہاشم کے دوسو اونٹ بھی تھے۔ اس کے بعد ابرھہ نے ایک ایلچی مکہ کے سردار حضرت عبدالمطلب کے پاس بھیجا اور اس کے ذریعے اہلِ مکہ کو پیغام دیا کہ "میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس گھر(کعبہ) کو گرانے آیا ہوں۔ اگر تم نہ لڑو تو میں تمہاری جان و مال سے کوئی تعرض نہ کروں گا"
حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ " ہم میں ابرھہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ کعبہ اللہ کا گھر ہے۔ وہ چاہے گا تو اپنے گھر کو بچا لے گا"
ایلچی نے کہا کہ "آپ میرے ساتھ ابرھہ کے پاس چلیں۔ "وہ اس پر راضی ہوگئے۔
حضرت عبدالمطلب بہت خوبصورت اور شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ ابرھہ ان کی مردانہ وجاھت سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنے تخت سے اتر کر ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ پھر آپ سے پوچھا "آپ کیا چاہتے ہیں؟"
انہوں نے کہا: "میرے جو اونٹ پکڑ لیے گئے ہیں۔ میں اپنے ان اونٹوں کی واپسی چاھتا ہوں۔"
ابرھہ ان کی بات سن کر سخت متعجب ہوا اور کہا "آپ مجھ سے اپنے دو سو اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ تو کر رہے ہیں مگر اس بیت اللہ کا ذکر نہیں کرتے۔ جو آپ کے اور آپ کے آباؤ اجداد کے دین کی بنیاد ہے۔ میں اسے گرانے آیا ہوں مگر آپ کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں"
یہ سن کر حضرت عبدالمطلب نے کہا: "ان اونٹوں کا مالک میں ہوں۔ اس لیے آپ سے ان کی واپسی کی درخواست کر رہا ہوں۔ رہا یہ گھر تو اس گھر کا مالک اللہ ہے۔ وہ اس کی حفاظت خود کرے گا"
ابرھہ نے متکبرانہ انداز میں کہا: "کعبہ کو اب آپ کا اللہ بھی مجھ سے نہیں بچا سکے گا"
حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا: "یہ معاملہ آپ جانیں اور اللہ لیکن یہ اس کا گھر ہے اور آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا۔ "یہ کہہ کر وہ ابرھہ کے پاس سے اٹھ گئے اور ابرھہ سے واپس لیے گئے اونٹ لے کر مکہ آگئے۔
قریش اتنی بڑی فوج سے لڑکر کعبہ کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ لہذا حضرت عبدالمطلب نے انہیں کہا کہ سب اپنے بال بچوں اور مال مویشی لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو۔
پھر وہ قریش کے چند سرداروں کے ساتھ حرم کعبہ پہنچے اور اللہ کے حضور اپنی کمزوری کا اظہار کرکے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھر کی خود حفاظت فرمائے۔ مؤرخین نے حضرت عبدالمطلب کے جو دعائیہ اشعار نقل کیے وہ یہ ہیں۔
"الہی! بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما۔ کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر غالب نہ آنے پائے۔ صلیب کی آل کے مقابلے پر آج اپنی آل کی مدد فرما۔
اے میرے رب! تیرے سوا میں ان کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا۔ اے میرے رب! ان سے اپنے حرم کی حفاظت فرما"
یہ دعائیں مانگ کر حضرت عبدالمطلب بھی سرداران قریش کے ساتھ باقی اہلِ مکہ کے پاس پہاڑوں میں چلے گئے۔
دوسرے روز ابرھہ نے مکہ پر حملہ کا حکم دیا اور وہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا مگر حیرت انگیز طور پر اس کا خاص ھاتھی "محمود" مکہ کی طرف چلنے کی بجائے یکایک وہیں بیٹھ گیا اور بے پناہ کوشش کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہ ھلا مگر جب اس کا منہ شام کی طرف کیا گیا تو اٹھ کر چلنے لگا اور یمن کی طرف رخ ھوا تو ادھر بھی دوڑنے لگا۔ مگر مکہ کی طرف اسے چلانے کی کوشش کی جاتی تو ایک انچ ادھر نہ بڑھتا۔ نتیجتاََ باقی ہاتھیوں سمیت سارا لشکر بھی اپنی جگہ انتظار میں رکا ہوا تھا۔
ابھی وہ اسی چکر میں پھنسے تھے کہ اللہ کے قہر نے ان کو آ لیا اور اللہ کے حکم سے ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ ان پر نازل ہوگئے۔ ہر ابابیل کے چونچ اور دونوں پنجوں میں سنگریزے دبے ہوئے تھے۔ ابرھہ اور اس کے لشکر کے وھم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ابابیلوں نے عین ان کے اوپر آ کر وہ سنگ ریزے گرانا شروع کردیئے۔
وہ سنگ ریزے' سنگ ریزے کہاں تھے۔ وہ تو اللہ کا عذاب تھے۔ جس پر جہاں گرتے' بجائے صرف زخمی کرنے کے کسی چھوٹے بم کی سی تباھی مچا دیتے۔ اللہ کے گھر پر حملہ کرنے کی جرآت کرنے والوں کے لیے کہیں کوئی جائے پناہ نہ تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں ابرھہ اپنے 60 ہزار کے لشکر اور 13 ہاتھیوں سمیت سنگریزوں کی اس بارش میں اپنے انجام کو پہنچا اور یوں پہنچا کہ جیسے کھایا ہوا بھوسہ ہو۔ ہر طرف انسانی لاشیں چیتھڑوں کے روپ میں پڑیں تھیں۔
یہ واقعہ 571 عیسوی میں محرم کے مہینہ میں مزدلفہ اور منی' کے درمیان وادی محصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا۔ جس سال یہ واقعہ پیش آیا۔ اہلِ عرب اسے عام الفیل کہتے ہیں جبکہ اسی سال اس واقعہ کے 50 دن بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کی ولادت مبارک ہوئی۔
القرآن: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اس نے ان کی تدبیر کو نامراد نہیں بنا دیا؟ اللہ نے ان پر پرندوں (ابابیل) کے جھنڈ بھیجے جو ان پر (کھنگر مٹی کی) کنکریاں پھینکتے تھے۔ اس طرح اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔
سورہ الفیل: آیت 1 تا 5