Friday, 31 March 2023

واقعہ اصحاب الفیل (571 عیسوی میں, جب یمن کا حبشی نژاد عیسائی حکمران "ابرھہ بن اشرم" 60 ہزار فوج اور 13 ہاتھی لے کر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ہوا)

 واقعہ اصحاب الفیل حضرت محمد مصطفی' صلی اللہ علیہ والہ واصحابیہ وسلم کی ولادت مبارکہ والے سال یعنی 571 عیسوی میں پیش آیا۔ جب یمن کا حبشی نژاد عیسائی حکمران "ابرھہ بن اشرم" 60 ہزار فوج اور 13 ہاتھی لے کر خانہ کعبہ کو گرانے
کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ہوا۔


ابرھہ بن اشرم آغازمیں اس عیسائی فوج کا سپہ سالار تھا جو شاہ حبشہ نے یمن کے حمیری نسل کے یہودی فرماں روا "یوسف ذونواس" کے عیسائیوں پر ظلم و ستم کا بدلہ لینے کو بھیجی۔ 

جس نے 525 عیسوی تک اس پورے علاقے پر حبشی حکومت کی بنیاد رکھ دی۔ ابرھہ بن اشرم رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بالآخر یمن کا خودمختار بادشاہ بن بیٹھا لیکن کمال چالاکی سے اس نے برائے نام شاہ حبشہ کی بالادستی بھی تسلیم کیے رکھی اور اپنے آپ کو نائب شاہ حبشہ کہلواتا رہا۔

ابرھہ ایک کٹر متعصب عیسائی تھا۔ اپنا اقتدار مضبوط کرلینے کے بعد اس نے عربوں میں عیسائیت پھیلانے کی سوچی جبکہ اس کا دوسرا ارادہ عربوں کی تجارت پر قبضہ جمانا تھا۔

اس مقصد کے اس نے یمن کے دارالحکومت "صنعاء" میں ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا۔ جسے عرب مؤرخین القلیس اور یونانی ایکلیسیا کہتے ہیں۔ اس کلیسا کی تعمیر سے اس کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو عیسائیت کی تبلیغ کرکے عربوں کے حج کا رخ کعبہ سے اپنے کلیسا کی طرف موڑنا تھا اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا کہ عربوں کی ساری تجارت جو ابھی تک خانہ کعبہ کی وجہ سے عربوں کے پاس تھی۔ وہ یمن کے حبشی عیسائیوں کے ہاتھ آ جاتی۔

ابرھہ نے پہلے شاہ جبشہ کو اپنے اس ارادے کی اطلاع دی اور پھریمن میں علی الاعلان منادی کرادی کہ "میں عربوں کا حج کعبہ سے اکلیسیا کی طرف موڑے بغیر نہ رہوں گا۔"

اس کے اس اعلان پر غضبناک ہوکر ایک عرب( حجازی) نے کسی نہ کسی طرح ابرھہ کے گرجا میں گھس کر رفع حاجت کرڈالی۔ اپنے کلیسا کی اس توہین پر ابرھہ نے قسم کھائی کہ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک کعبہ کو گرا نہ دوں۔

اس کے بعد سنہ 570 عیسوی کے آخر میں وہ 60 ہزار فوج اور 13 جسیم ہاتھی لیکر یمن سے مکہ پر حملہ آور ہونے کے ارادے سے نکلا۔ راستے میں دو عرب سرداروں نے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر شکست کھائی اور ابرھہ کسی طوفان کی طرح مکہ کے مضافاتی مقام "المغمس" میں پہنچ گیا۔

یہاں ابرھہ کے لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ جبکہ چند دستوں نے اس کے حکم پر مکہ کے قریب میں لوٹ مار کی اور اہلِ تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی بھی لوٹ لئے گئے جن میں مکہ کے سردار اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب بن ہاشم کے دوسو اونٹ بھی تھے۔ اس کے بعد ابرھہ نے ایک ایلچی مکہ کے سردار حضرت عبدالمطلب کے پاس بھیجا اور اس کے ذریعے اہلِ مکہ کو پیغام دیا کہ "میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس گھر(کعبہ) کو گرانے آیا ہوں۔ اگر تم نہ لڑو تو میں تمہاری جان و مال سے کوئی تعرض نہ کروں گا"

حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ " ہم میں ابرھہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ کعبہ اللہ کا گھر ہے۔ وہ چاہے گا تو اپنے گھر کو بچا لے گا"

ایلچی نے کہا کہ "آپ میرے ساتھ ابرھہ کے پاس چلیں۔ "وہ اس پر راضی ہوگئے۔

حضرت عبدالمطلب بہت خوبصورت اور شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ ابرھہ ان کی مردانہ وجاھت سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنے تخت سے اتر کر ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ پھر آپ سے پوچھا "آپ کیا چاہتے ہیں؟"

انہوں نے کہا: "میرے جو اونٹ پکڑ لیے گئے ہیں۔ میں اپنے ان اونٹوں کی واپسی چاھتا ہوں۔"

ابرھہ ان کی بات سن کر سخت متعجب ہوا اور کہا "آپ مجھ سے اپنے دو سو اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ تو کر رہے ہیں مگر اس بیت اللہ کا ذکر نہیں کرتے۔ جو آپ کے اور آپ کے آباؤ اجداد کے دین کی بنیاد ہے۔ میں اسے گرانے آیا ہوں مگر آپ کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں"

یہ سن کر حضرت عبدالمطلب نے کہا: "ان اونٹوں کا مالک میں ہوں۔ اس لیے آپ سے ان کی واپسی کی درخواست کر رہا ہوں۔ رہا یہ گھر تو اس گھر کا مالک اللہ ہے۔ وہ اس کی حفاظت خود کرے گا"

ابرھہ نے متکبرانہ انداز میں کہا: "کعبہ کو اب آپ کا اللہ بھی مجھ سے نہیں بچا سکے گا"

حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا: "یہ معاملہ آپ جانیں اور اللہ لیکن یہ اس کا گھر ہے اور آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا۔ "یہ کہہ کر وہ ابرھہ کے پاس سے اٹھ گئے اور ابرھہ سے واپس لیے گئے اونٹ لے کر مکہ آگئے۔

قریش اتنی بڑی فوج سے لڑکر کعبہ کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ لہذا حضرت عبدالمطلب نے انہیں کہا کہ سب اپنے بال بچوں اور مال مویشی لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو۔

پھر وہ قریش کے چند سرداروں کے ساتھ حرم کعبہ پہنچے اور اللہ کے حضور اپنی کمزوری کا اظہار کرکے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھر کی خود حفاظت فرمائے۔ مؤرخین نے حضرت عبدالمطلب کے جو دعائیہ اشعار نقل کیے وہ یہ ہیں۔

"الہی! بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما۔ کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر غالب نہ آنے پائے۔ صلیب کی آل کے مقابلے پر آج اپنی آل کی مدد فرما۔

اے میرے رب! تیرے سوا میں ان کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا۔ اے میرے رب! ان سے اپنے حرم کی حفاظت فرما"

یہ دعائیں مانگ کر حضرت عبدالمطلب بھی سرداران قریش کے ساتھ باقی اہلِ مکہ کے پاس پہاڑوں میں چلے گئے۔

دوسرے روز ابرھہ نے مکہ پر حملہ کا حکم دیا اور وہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا مگر حیرت انگیز طور پر اس کا خاص ھاتھی "محمود" مکہ کی طرف چلنے کی بجائے یکایک وہیں بیٹھ گیا اور بے پناہ کوشش کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہ ھلا مگر جب اس کا منہ شام کی طرف کیا گیا تو اٹھ کر چلنے لگا اور یمن کی طرف رخ ھوا تو ادھر بھی دوڑنے لگا۔ مگر مکہ کی طرف اسے چلانے کی کوشش کی جاتی تو ایک انچ ادھر نہ بڑھتا۔ نتیجتاََ باقی ہاتھیوں سمیت سارا لشکر بھی اپنی جگہ انتظار میں رکا ہوا تھا۔

ابھی وہ اسی چکر میں پھنسے تھے کہ اللہ کے قہر نے ان کو آ لیا اور اللہ کے حکم سے ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ ان پر نازل ہوگئے۔ ہر ابابیل کے چونچ اور دونوں پنجوں میں سنگریزے دبے ہوئے تھے۔ ابرھہ اور اس کے لشکر کے وھم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ابابیلوں نے عین ان کے اوپر آ کر وہ سنگ ریزے گرانا شروع کردیئے۔

وہ سنگ ریزے' سنگ ریزے کہاں تھے۔ وہ تو اللہ کا عذاب تھے۔ جس پر جہاں گرتے' بجائے صرف زخمی کرنے کے کسی چھوٹے بم کی سی تباھی مچا دیتے۔ اللہ کے گھر پر حملہ کرنے کی جرآت کرنے والوں کے لیے کہیں کوئی جائے پناہ نہ تھی۔

تھوڑی ہی دیر میں ابرھہ اپنے 60 ہزار کے لشکر اور 13 ہاتھیوں سمیت سنگریزوں کی اس بارش میں اپنے انجام کو پہنچا اور یوں پہنچا کہ جیسے کھایا ہوا بھوسہ ہو۔ ہر طرف انسانی لاشیں چیتھڑوں کے روپ میں پڑیں تھیں۔


یہ واقعہ 571 عیسوی میں محرم کے مہینہ میں مزدلفہ اور منی' کے درمیان وادی محصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا۔ جس سال یہ واقعہ پیش آیا۔ اہلِ عرب اسے عام الفیل کہتے ہیں جبکہ اسی سال اس واقعہ کے 50 دن بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کی ولادت مبارک ہوئی۔

القرآن: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اس نے ان کی تدبیر کو نامراد نہیں بنا دیا؟ اللہ نے ان پر پرندوں (ابابیل) کے جھنڈ بھیجے جو ان پر (کھنگر مٹی کی) کنکریاں پھینکتے تھے۔ اس طرح اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔
سورہ الفیل: آیت 1 تا 5

Monday, 13 March 2023

حبیب جالب (24 مارچ 1928ء تا 13 مارچ 1993ء)


اردو شاعر حبیب جالب (HABIB JALIB) 1928ء میں دسوہہ ضلع ہوشیار پور ’’بھارتی پنجاب‘‘ میں پیدا ہوئے۔ اینگلو عربک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی ، روزنامہ جنگ اور پھر لائلپور ٹیکسٹائل مل سے روزگار کے سلسلے میں منسلک ہوئے۔
آزادی کے بعد کراچی آ گئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔
مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالآخر 1956ء میں لاہور میں مستقل آباد ہوگئے۔ پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957ء میں شائع کیا۔
حبیب جالب متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور ایک عام آدمی کے اندز میں سوچتے تھے، وہ پاکستان کے محنت کش طبقے کی زندگی میں تبدیلی کے آرزو مند رہے اور یہی وجہ رہی کہ وہ سماج کے ہر اُس پہلو سے لڑے جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا۔
وہ اپنی انقلابی سوچ کے تحت آخری دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلی طبقات کے استحصال سے نجات دلانے کا کام کرتے رہے۔
حبیب جالب نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا، نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس کو اپنے اشعار میں ڈھال دیا۔
انہوں نے ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمۂ حق بیان کیا، حبیب جالب کے بے باک قلم نے ظلم، زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو لکھا وہ زبان زدِ عام ہوگیا۔
ایوب خان اور یحیی خان کے دور آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ جالب کو 1960ء کے عشرے ميں جيل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے کچھ اشعار لکھے”سرِمقتل” کے عنوان سے جو حکومتِ وقت نے ضبط کر ليۓ ليکن انہوں نے لکھنا نہيں چھوڑا۔ جالب نے1960 اور 1970 کے عشروں بہت خوبصورت شاعری کي جس ميں انہوں نے اس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھرپور احتجاج کيا ۔
1958ء میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا، 1962ء میں اسی ایوبی آمریت نےنام نہاد دستور پیش کیا جس پر جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم کہی جس نے عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگا دی،
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔
1970ء کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکژیتی پارٹی کو منتقل نہیں کیا اور اس کے جواب میں ان پر گولیاں برسایئں۔ اس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کر رہا تھا۔ اس وقت یہ جالب صاحب ہی تھے جو کہے رہے تھے؛
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
1974ء میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسند اقتدار پر پہنچے تھے ان سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کر دیا، اسی دور میں جالب صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی:
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو
ضیاء الحق کے مارشل لا میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاءالحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں تو کہا:
ظلمت کو ضیا ء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
آمریت کے بعد جب پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت آیا اور عوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
حبیب جالب کی پوری زندگی فقیری میں گذری ۔
اپنی زندگی میں حکومتی مخالفتوں کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت کا بھی ایک جم غفیر ان کے ساتھ تھا ۔ جن میں ہر شعبۂ زندگی کے لوگ شامل تھے ۔ جن سے آپ کسی نہ کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر انہوں نے ایک معمولی سا فائدہ نہ اپنی ذات کے لیے اٹھایا اور نہ اپنے اہل خانہ کو کچھ حاصل کرنے دیا ۔ ان کے بچے معمولی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے جوان ہوئے ۔
ان کو نگار فلمی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔
اس کے علاوہ 2006ء سے ان کے نام سے حبیب جالب امن ایوارڈ کا اجراء کیا گیا۔
تاریخی روایات کے عین مطابق حبيب جالب درباروں سے صعوبتيں اور کچے گھروں سے چاہتيں سميٹتا 13مارچ 1993 کو 65 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔

Saturday, 11 February 2023

امجد اسلام امجد (4 اگست 1944ء تا 10 فروری 2023)


 آہ امجد اسلام امجد، انا للہ وانا الیہ راجعون

امجد اسلام امجد چار اگست 1944ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے جبکہ ابتدائی تعلیمی مراحل لاہور میں طے کیے۔
ایک انٹرویو میں اپنے بچپن کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا خاندان دستکاروں کا ایک خاندان تھا، جس میں ادب پڑھنا تو دور کی بات ہے، سرے سے پڑھنے لکھنے کا رواج ہی نہیں تھا:’’سوائے اس کے کہ یہ جسے آپ پڑھنے کی عادت کہتے ہیں، یہ مجھے اپنے والد صاحب سے ملی، جو ابنِ صفی کے جاسوسی ناول یا پھر تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمے اور شفیق الرحمان کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے تھے تو یہ کتابیں مَیں نے بچپن ہی میں پڑھ لی تھیں، جس سے پڑھنے کا شوق تو مجھے ہو گیا تھا لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے گھر سے کوئی مزید مدد نہ مل پائی۔‘‘
ادبی ذوق کو نکھارنے میں بنیادی کردار اُن کے اساتذہ نے انجام دیا:
’’شاید میرے اساتذہ نے محسوس کیا کہ میرے لکھنے اور بولنے میں کوئی ایسی اضافی چیز ہے، جو مجھے باقی طالب علموں سے شاید ممتاز کرتی ہے، چنانچہ مجھے نویں جماعت میں سکول کے رسالے کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔‘‘
امجد اسلام نے گریجوایشن گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں کالج کے ابتدائی برسوں میں آیا تو اُس وقت مجھے یہ محسوس ہوا کہ مَیں لکھ سکتا ہوں، شاعری یا نثر کی زبان میں‘۔
اُس دور میں وہ بنیادی طور پر کرکٹر بننا چاہتے تھے:
’’مَیں اچھی کرکٹ کھیلتا تھا اور مَیں نے یونیورسٹی کی سطح تک کرکٹ کھیلی۔ ادب کا رجحان ایک ذیلی رَو تھی اور کرکٹ کے بعد یہ میری دوسری چوائس تھی۔‘‘
امجد اسلام امجد کے مطابق جب کرکٹ کے کھیل میں اُنہیں یکے بعد دیگرے کچھ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری طرف کالج میں گریجوایشن میں اردو میں زیادہ نمبر حاصل کرنے پر اسکالر شپ مل گئی تو کرکٹ کی بجائے اُن کی مکمل توجہ شعر و ادب کی طرف ہو گئی:
’’ہمارے ایک محلّے دار تھے، آقا بیدار بخت، جو بچپن سے میری بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ تم لکھا کرو، پڑھا کرو، مَیں اپنی ابتدائی شاعری بھی اُنہی کو دکھاتا تھا۔ پھر چلتے چلتے جب مَیں یونیورسٹی میں آیا تو مَیں نے سنجیدگی سے شعر و ادب پر توجہ دینا شروع کر دی اور پرانے کلاسیکی شاعروں کو خاص طور پر پڑھا، جن پر بعد میں مَیں نے ’نئے پرانے‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔‘‘
امجد اسلام امجد کا کہنا تھا کہ کلاسیکی شعراء کو پڑھنے کے بعد ہی آپ موجودہ دور کی شاعری کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اُنہوں نے میر تقی میر کے ایک شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو چیز بعد ازاں کارل مارکس نے طویل تحقیق کے بعد پیش کی، وہ اُن کی پیدائش سے بھی پہلے میر اپنے اس شعر میں بیان کر گئے تھے کہ
؃امیر زادوں سے دلّی کے مَت مِلا کر میر
کہ ہم غریب ہوئے ہیں، اُنہی کی دولت سے
پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے ایک استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کا آغاز لاہور ہی کے ایم اے او کالج سے کیا۔ 1975ء سے لے کر 1979ء تک وہ پاکستان ٹیلی وژن سے بطور ڈائریکٹر وابستہ رہے۔ وہ ’اردو سائنس بورڈ‘ اور ’چلڈرن لائبریری کمپلیکس‘ سمیت متعدد سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں۔
ریڈیو پاکستان سے بطور ڈرامہ نگار چند سال وابستہ رہنے کے بعد امجد اسلام امجد نے پی ٹی وی (پاکستان ٹیلی وژن) کے لیے کئی سیریلز لکھیں، جن میں ’وارث‘ کے ساتھ ساتھ ’دہلیز‘، ’سمندر‘، ’رات‘، ’وقت‘ اور ’اپنے لوگ‘ بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنہیں صحیح معنوں میں شہرت 1979ء میں دکھائی جانے والی سیریل’وارث‘ سے ملی کیونکہ ’جہاں شاعری کی رسائی محض ایک محدود طبقے تک ہی ہوا کرتی ہے، وہاں اُس زمانے میں بھی، جب ملک میں پی ٹی وی کی صورت میں محض ایک چینل ہوا کرتا تھا، ناظرین کی تعداد سات آٹھ کروڑ ہوا کرتی
تھی‘۔
اُنہوں نے شعر و ادب کی کئی جہات میں کام کیا ہے اور کئی تراجم کرنے کے ساتھ ساتھ تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔ وہ ’چشمِ تماشا‘ کے نام سے باقاعدگی کے ساتھ ایک کالم بھی لکھتے ہیں۔ نظم و نثر میں اُن کی چالیس سے زیادہ کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں جبکہ وہ اپنی ادبی خدمات کے بدلے میں ’صدارتی تمغہء حسن کارکردگی‘ اور ’ستارہء امتیاز‘ سمیت متعدد اعزازات بھی حاصل کئے۔ 10 فروری 2023، معروف شاعر، ادیب اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد 78 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔
وہ اپنے انٹرویوز میں اپنی یہ خوبصورت مختصر نظم ہمیشہ بہت شوق سے سناتے تھے کہ
محبت ایسا نغمہ ہے
محبت ایسا نغمہ ہے
ذرا بھی جھول ہے لَے میں
تو سُر قائم نہیں رہتا
محبت ایسا شعلہ ہے
ہوا جیسی بھی چلتی ہو
کبھی مدھم نہیں ہوتا
محبت ایسا رشتہ ہے
کہ جس میں بندھنے والوں کے
دلوں میں غم نہیں ہوتا
محبت ایسا پودا ہے
جو تب بھی سبز رہتا ہے
کہ جب موسم نہیں ہوتا
محبت ایسا رستہ ہے
اگر پیروں میں لرزش ہو
تو یہ محرم نہیں ہوتا
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا۔