Monday 13 March 2023

حبیب جالب (24 مارچ 1928ء تا 13 مارچ 1993ء)


اردو شاعر حبیب جالب (HABIB JALIB) 1928ء میں دسوہہ ضلع ہوشیار پور ’’بھارتی پنجاب‘‘ میں پیدا ہوئے۔ اینگلو عربک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی ، روزنامہ جنگ اور پھر لائلپور ٹیکسٹائل مل سے روزگار کے سلسلے میں منسلک ہوئے۔
آزادی کے بعد کراچی آ گئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔
مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالآخر 1956ء میں لاہور میں مستقل آباد ہوگئے۔ پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957ء میں شائع کیا۔
حبیب جالب متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور ایک عام آدمی کے اندز میں سوچتے تھے، وہ پاکستان کے محنت کش طبقے کی زندگی میں تبدیلی کے آرزو مند رہے اور یہی وجہ رہی کہ وہ سماج کے ہر اُس پہلو سے لڑے جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا۔
وہ اپنی انقلابی سوچ کے تحت آخری دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلی طبقات کے استحصال سے نجات دلانے کا کام کرتے رہے۔
حبیب جالب نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا، نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس کو اپنے اشعار میں ڈھال دیا۔
انہوں نے ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمۂ حق بیان کیا، حبیب جالب کے بے باک قلم نے ظلم، زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو لکھا وہ زبان زدِ عام ہوگیا۔
ایوب خان اور یحیی خان کے دور آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ جالب کو 1960ء کے عشرے ميں جيل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے کچھ اشعار لکھے”سرِمقتل” کے عنوان سے جو حکومتِ وقت نے ضبط کر ليۓ ليکن انہوں نے لکھنا نہيں چھوڑا۔ جالب نے1960 اور 1970 کے عشروں بہت خوبصورت شاعری کي جس ميں انہوں نے اس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھرپور احتجاج کيا ۔
1958ء میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا، 1962ء میں اسی ایوبی آمریت نےنام نہاد دستور پیش کیا جس پر جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم کہی جس نے عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگا دی،
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔
1970ء کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکژیتی پارٹی کو منتقل نہیں کیا اور اس کے جواب میں ان پر گولیاں برسایئں۔ اس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کر رہا تھا۔ اس وقت یہ جالب صاحب ہی تھے جو کہے رہے تھے؛
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
1974ء میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسند اقتدار پر پہنچے تھے ان سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کر دیا، اسی دور میں جالب صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی:
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو
ضیاء الحق کے مارشل لا میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاءالحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں تو کہا:
ظلمت کو ضیا ء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
آمریت کے بعد جب پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت آیا اور عوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
حبیب جالب کی پوری زندگی فقیری میں گذری ۔
اپنی زندگی میں حکومتی مخالفتوں کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت کا بھی ایک جم غفیر ان کے ساتھ تھا ۔ جن میں ہر شعبۂ زندگی کے لوگ شامل تھے ۔ جن سے آپ کسی نہ کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر انہوں نے ایک معمولی سا فائدہ نہ اپنی ذات کے لیے اٹھایا اور نہ اپنے اہل خانہ کو کچھ حاصل کرنے دیا ۔ ان کے بچے معمولی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے جوان ہوئے ۔
ان کو نگار فلمی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔
اس کے علاوہ 2006ء سے ان کے نام سے حبیب جالب امن ایوارڈ کا اجراء کیا گیا۔
تاریخی روایات کے عین مطابق حبيب جالب درباروں سے صعوبتيں اور کچے گھروں سے چاہتيں سميٹتا 13مارچ 1993 کو 65 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔

No comments:

Post a Comment