Thursday, 26 December 2013

قائد اور ان کی قوم

آج پوری قوم نے یوم قائد منایا۔ بانئ پاکستان کی باتوں کو یاد کیا گیا۔ ان کے مزار پر مسلح افواج کے چاق و چوبند دستوں کی شاندار پریڈ ہوئی۔ فوجی کمانڈروں کے علاوہ سیاسی لیڈروں نے بانئ پاکستان کے مزار پر حاضری دی۔ اس ساری شان و شوکت کے دوران پاکستان کے ہر شہری کے دل میں اس سوال نے ضرور سر اٹھایا ہو گا کہ کیا قائد ایسا ہی ملک بنانا چاہتے تھے۔
کراچی کہ جس شہر میں قائداعظم محمد علی جناح آرام فرما ہیں ۔۔۔ دہشت گردی، لاقانونیت اور عدم تحفظ کی علامت بن چکا ہے۔ وہ خطہ ارض جو اس مقصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمان اقتصادی اور سماجی استحصال سے محفوظ رہ سکیں۔ وہاں استحصال اور لوٹ مار ہی کا رواج ہے۔ وہ شخص جو نظم، ضبط اور اصول کا پابند تھا۔ آج جب اپنی قوم کے انتشار اور بدنظمی کو دیکھتا ہو گا، تو قبر میں بھی اس کی روح بے چین ہو جاتی ہو گی۔
14اگست کی طرح  25 دسمبر کا دن بھی ملک کے موجودہ حالات میں خوشیاں منانے اور نعرے لگانے کی بجائے یہ غور و فکر کرنے کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک ایسا خواب جس کی تعبیر خوشگوار ہونی چاہئے تھی۔ آخر وہ کیوں گہنا گیا۔ وہ سارے تصورات اور امیدیں کیوں خاک ہوئیں جو محمد علی جناح کے علاوہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں نے دیکھی تھیں۔
محمد علی جناح کی جدوجہد سیاسی اور قانونی تھی۔ وہ مسلمانوں کے سماجی اور معاشی حقوق کے لئے کمربستہ ہوئے تھے۔ اب ہم ان کی تصویریں آویزاں کر کے اور ان کے مزار کی شان و شوکت بڑھا کر مرحوم قائد کو ایک دیوتا کا درجہ دینے کے لئے تو تیار ہیں لیکن کوئی بھی ان اصولوں کو ماننے اور ان پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جن کی بنیاد پر برطانوی سرکار اور ہندو اکثریت کے زبردست دباؤ کے باوجود محمد علی جناح نے ہار نہیں مانی تھی۔
اہل پاکستان نے تحریک پاکستان کی تاریخ کو کئی طریقوں سے پڑھا ہے۔ لیکن اس کی مقبول ترین اور نصابی تفہیم کو کفر و اسلام کی جنگ بنا دیا گیا ہے۔ جناح اور اقبال کی پوری زندگی، تعلیمات اور جدوجہد میں اس تصادم اور تضاد کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ لیکن ہمارے تازہ دم دانشور یہ ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ سیکولر محمد علی جناح کی ساری جدوجہد اسلام کی نشاط ثانیہ کے لئے تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ جناح اس تصور کے نام سے بھی آشنا نہیں ہوں گے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر، محقق، دانشور اور ادیب حسین حقانی نے اپنی تازہ ترین تصنیف میں یہ ذکر کیا ہے کہ جناح ریٹائرمنٹ کے بعد ممبئی میں اپنی زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اس وقت بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ ممبئی میں ان کی رہائش گاہ کا خیال رکھا جائے۔ اس دستاویزی تحقیق پر پاکستان کے بعض جذباتی اور جیالے دانشوروں نے حسین حقانی کے لتے لئے ہیں اور اسے ملک دشمنی پر مبنی بیان قرار دیا ہے۔
کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستانی کے طور پر ہم قائد کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے اپنے موجودہ پرصعوبت حالات میں کوئی راستہ تلاش کریں۔ اگر قائد کے اس رویہ سے روشنی حاصل کی جائے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ممبئی میں رہنا چاہتے تھے تو اس سے محض یہ خوشگوار پیغام ملتا ہے کہ محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کے دلوں میں برصغیر کی تقسیم کے باوجود پرامن ہمسایہ ملکوں کے طور پر ساتھ ساتھ چلنے کی شدید خواہش موجود تھی۔ وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ یہ دونوں ملک دشمنی کے اس راستے پر روانہ ہوں گے جہاں تین جنگیں، ایٹمی بموں کی تیاری اور پاکستان کی تقسیم مرقوم ہو گی۔
قائد کے خواب میں پہلی کیل تو دسمبر 1971میں ہی ٹھونک دی گئی تھی جب پاکستان کو دولخت کیا گیا تھا۔ آج کوئی یہ جاننے کی خواہش نہیں رکھتا کہ تب مشرقی پاکستان کے عوام نے بنگلہ دیش قائم کرنے کے لئے کیوں اصرار کیا تھا۔ یہی لوگ تھے جو محض ربع صدی قبل قیام پاکستان کے پرجوش حامی تھے۔ حال ہی میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے عبدالقادر ملا کو پھانسی دینے کے واقعے پر پاکستان کی حکومت اور سیاسی و مذہبی قیادت نے جس رویہ کا مظاہرہ کیا ہے۔۔۔ وہ کچھ اور ثابت نہ بھی کرے تو یہ واضح ضرور کرتا ہے کہ باقی ماندہ پاکستان میں شدت پسندی کا ایسا مزاج تیار کیا گیا ہے جو محمد علی جناح کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
محمد علی جناح اس لئے قائداعظم کہلائے تھے کہ انہوں نے بقائے باہمی، باہم احترام اور امن کے نقطہ نظر سے ایک کامیاب سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کا قیام ممکن بنایا تھا۔ آج ہم ان بنیادی اصولوں سے گریز میں پاکستان کی بقا کا خواب دیکھتے ہیں۔ مسلم لیگ نے دو بڑی طاقتوں انگریز اور ہندو اکثریت کے خلاف پرامن جدوجہد کی تھی۔ لیکن ہم تعمیر وطن کے لئے ایک دوسرے کو خون میں نہلانے پر مصر ہیں۔
آج کے پاکستان میں نظریہ پاکستان کی تعبیر کرتے ہوئے جو گل افشانیاں کی جا رہی ہیں، وہ محمد علی جناح کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوں گی۔ جناح نے کب چاہا ہو گا کہ وہی مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹیں جن کا معاشی مستقبل محفوظ بنانے کے لئے انہوں نے اپنی مہنگی وکالت اور پرتعیش زندگی کو تج دیا تھا۔ آج پاکستان میں زندگی کو جس طرح ارزاں کیا گیا ہے، وہ قائد کو خراج نہیں ہے بلکہ ان اصولوں، شخصیت اور پیغام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔
محمد علی جناح سب کے لئے مساوی مواقع چاہتے تھے۔ سب کو برابری کا حق دینا چاہتے تھے۔ وہ ایک قوم کے طورپر ایک پروقار ملک کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بعد از وقت ان بنیادوں کو ہلا کر ایک مصنوعی تصور پر ایک قوم تعمیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی لئے آج نہ احترام موجود ہے اور نہ ہی ترقی کا راستہ نظر آتا ہے۔ قائد کی جدوجہد دیانت اور امانت پر استوار تھی ہمارا وجود ان دونوں بنیادوں کی نفی کرتا ہے۔
پاکستان کو آج بھی اگر آگے بڑھنا ہے، زندہ رہنا ہے اور سرفراز ہونا ہے تو انہی اصولوں کو اپنانا ہو گا جن کی بنیاد پر یہ ملک قائم کیا گیا تھا۔ کوئی بھی ملک اپنے وجود کے جواز سے انکار کر کے قائم رہنے اور مستحکم ہونے کا نہیں سوچ سکتا۔ اس مقصد کے لئے اہل پاکستان کو محمد علی جناح کی زندگی کی کہانی اور اصولوں کے معانی ازسرنو یاد کرنا ہوں گے۔
پاکستانی عوام کو نظریہ پاکستان کی توجیہات اور تشریحات کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں محض یہ بتا دیا جائے کہ ان کا قائد امن، مساوات اور احترام آدمیت کا قائل تھا۔ اگر ہم اپنی صورت دیکھ کر سبق حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو آئینہ ہمارے سامنے ہے۔

No comments:

Post a Comment