Wednesday, 12 March 2014

تھر: ’گیارہ لاکھ متاثر، ڈیڑھ لاکھ کی نقل مکانی‘


پاکستان کے صوبہ سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے صحرائی علاقے تھر میں گیارہ لاکھ لوگ خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔

سندھ حکومت نے حالیہ بحران کے پیشِ نظر علاقے میں گندم کی ایک لاکھ بیس ہزار بوریاں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ محکمہ خوراک کے ضلعی کنٹرولر محمد حنیف ابڑو نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ اس وقت تک 33 ہزار 300 بوریاں گندم تقسیم کرچکے ہیں، جبکہ ستائیس ہزار بوریاں گوداموں میں موجود ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے آٹھ ماہ میں گندم کی ساٹھ ہزار بوریاں تقسیم نہیں ہوسکی تھیں۔ قحط سالی کی اطلاعات کے بعد حکومت نے مزید ساٹھ ہزار بوریاں بھیجنے کا اعلان کیا تھا، لیکن خود حکومتی اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ابھی تک اعلانیہ گندم پہنچ نہیں سکی ہے۔

گذشتہ دو روز سے ٹھیکیداروں کی مدد سے گندم کی تقسیم کی جا رہی ہے، جس کے لیے مختلف سینٹر بنائے گئے ہیں، لیکن بی بی سی کو موصول ہونے والی شکایات کے مطابق اس مفت تقسیم پر بھی ٹھیکیدار لوگوں سے پیسے مانگ رہے ہیں۔
مخدوم امین فہیم کے بڑے بیٹے مخدوم جمیل الزمان کو وزارت سے ہٹا دیا گیا ہے، ان کے پاس محکمہ ریلیف کا قلمدان تھا۔ اس سے پہلے ڈپٹی کمشنر مٹھی مخدوم عقیل الزمان کو غفلت کی وجہ سے عہدے سے ہٹایا گیا تھا، جو جمیل الزمان کے چھوٹے بھائی ہیں۔
سندھ حکومت نے ریلیف کمشنر لالہ فضل الرحمان کو بھی فارغ کردیا ہے اور یہ چارج پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیڑ رہنما تاج حیدر کے حوالے کر دیا گیا ہے، جنہوں نے تھر میں کیمپ قائم کر رکھا ہے۔

دریں اثنا سندھ ہائی کورٹ نے سیشن جج مٹھی کو گندم کی تقسیم اور بچوں کی ہلاکت کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے قحط سالی اور بچوں کی ہلاکت کے ازخود نوٹس کی سماعت کے موقعے پر سیشن جج کو ہدایت کی کہ ماتحت ججوں کی مدد سے یہ اعداد و شمار جمع کیے جائیں۔

دوسری جانب سندھ حکومت نے 1998 کی مردم شماری کے بجائے موجودہ آبادی کے تحت گندم کی تقسیم کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت تھر میں دو لاکھ 59 ہزار خاندان رجسٹرڈ ہیں اور ہر گھرانہ دس سے پندرہ افراد اور بچوں پر مشتمل ہے۔ حکومت فی خاندان پچاس کلو گرام گندم فراہم کر رہی ہے، جو حکام کے خیال میں ایک ماہ کے لیے کافی ہے۔
غیر سرکاری تنظیمیں صرف گندم کی تقسیم کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اسکوپ نامی تنظیم کے مقامی رہنما بھارو مل کا کہنا ہے کہ سیلاب اور زلزلے میں جس طرح لوگوں کو حکومت آٹا، دال، چاول، گھی فراہم کرتی ہے یہاں بھی ایسے ہی پیکیج کی ضرورت ہے۔ ’لوگ روٹی کس سے کہائیں گے، حکومت کو اس کا بھی خیال کرنا چاہیے۔‘
بھارو مل نے بتایا کہ تھر کے لوگ جانوروں سے حاصل ہونے والے دودھ پر گذارہ کرتے تھے مگر اب جانور بڑی تعداد میں
ہلاک ہو چکے ہیں یا پھر کمزور ہیں، اس لیے لوگوں کو دودھ اور دہی دستیاب نہیں ہے۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی



No comments:

Post a Comment