Tuesday, 24 February 2015

آپ لوگوں کے نام، پاکستانیوں کے نام۔۔۔۔۔

شاید آپ لوگوں کو لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، لیکن ایسا بلکل بھی نہیں ہے، حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔  میں آپ لوگوں کو حالات سے آگاہ نہیں کرنا چاہتا، جب کہ کام کی پوسٹ یا اصل پوسٹ بالکل نہیں کی جاتی۔ کیونکہ اس میں صرف دکھ اور درد ہی شامل ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ سارا دن فیس بک پر بیٹھا رہتا ہے یا بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ گھومتا ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے، زندگی ویسی نہیں ہوتی جیسی کہ نظر آتی ہے۔ مجھے آپ لوگوں جو خبریں بھیجتے ہیں یا جو مجھے خود ملتی ہیں، لوگوں سے مل کر،  وہ بھیانک ہوتی جا رہی ہیں۔ معاشرے میں بےحیائی بڑھتی جارہی ہے۔
کل کی کچھ خبریں، میڈیکل کی طالبہ کو فیس بک پر بننے والے دوست وکیل کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔ سندر کے رہائشی وکیل ساجد حمیدنے  میڈیکل کی طالبہ انعم کو ملاقات کیلئے گھر پر بلایا جہاں وہ گولی لگنے سے دم توڑ گئی۔ انعم کے والد محمد امین نے الزام لگایا کہ اسکی بیٹی انعم سے زیادتی کی کوشش کی اور مزاحمت پر گولی مار کر قتل کر دیا۔مقتولہ رائے ونڈ روڈ پر لاہور میڈیکل کالج کی طالبہ تھی۔ جبکہ دوسرے واقعہ میں شیراکوٹ بس سٹینڈ پر سوٹ کیس سے ملنے والی نعش پنجاب یونیورسٹی کی 22 سالہ طالبہ کی نکلی۔ اریبہ پنجاب یونیورسٹی میں بی ایس سی کی طالبہ اور وحدت کالونی کے ایک ہاسٹل میں رہائش پذیر تھی۔ اریبہ کو ماڈلنگ کا شوق تھا، اسکی شناسائی طوبیٰ نامی عورت سے ہوئی۔ طوبی نے ماڈلنگ کا کام دلانے کے بہانے اریبہ کو چند روز قبل ماڈل ٹائون میں بلایا اور مبینہ طور پر اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بنوانے کے بعد قتل کر کے نعش سوٹ کیس میں بند کرکے اڈے پر چھوڑ کر فرار ہو گئی۔ آج صبح کی خبر، بنو میں تین سالہ
بچے کے ساتھ زیادتی کی گئی۔

یہ صرف تین خبریں نہیں ہیں، بلکہ اس میں بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ زمینی حقائق اس سےبھی بدتر ہیں۔ یہ وہ اصل مسائل ہیں جن کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا، مستقبل میں حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہونے والے ہیں۔

جہاں ایک طرف حالات اتنے خراب ہوتے جارہے ہیں، وہاں دوسری طرٖف این-جی-اوز، مدارس اور مولویوں کے خلاف دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ ان سے مختلف قسم کے عجیب سوالات کئے جاتے ہیں۔ آپ کی بہنیں کتنی ہیں، آپ کے بھائی کتنے ہیں، آپ کا مسلک کیا ہے، آپ کا مذہب کیا ہے۔ جہاں ایک طرف طالبان کی طرف سے خطرہ ہے، وہاں دوسری طرف سے قومی سلامتی کے ادارے تنگ کرتے ہیں اور ان سب کے باوجود بھی ہمیں اپنا کام بالکل ویسے ہی کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ سب سے ہنس کر باتیں کرنی پڑتی ہیں، لوگوں کو وقت دینا پڑتا ہے۔ دوسروں کے لئے آواز اٹھانی پڑتی ہے۔ سب کچھ ویسے ہی کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ جتنا ہم اس ملک کےلئے اچھا کرنا چاہتے ہیں، یہ ملک اتنا ہی پیچھے کی طرٖف جارہا ہے، حالات اچھے ہونے کی بجائے، بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ اس کےعلاوہ لوگوں کی باتیں سننی پڑتی ہیں، لوگوں کے طنز برداشت کرنے پڑتے ہیں، رشتےداروں کی کڑوی باتیں بھی ہنس کر سہنی پڑتی ہیں۔ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ہمارے حوصلے ابھی بھی بلند ہیں۔ اس دنیا میں کوئی غروب آخری نہیں، ہر غروب کیلئے ایک نیا طلوع مقدر ہے بشرطیکہ آدمی اپنی شام کو واپس صبح میں تبدیل کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ شکریہ۔

 آخر میں، معافی چاہتا ہوں، اتنی لمبی تحریر میں کبھی نہیں لکھتا، مجھے علم ہے کہ آپ لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ اتنا زیادہ پڑھ سکیں لیکن بہت سی باتیں ابھی بھی رہ گئی ہیں۔

ہم کلامی از ابرارالزمان۔

No comments:

Post a Comment