تمام اساتذہ اُن کا احترام کرتے تھے وہ روز اسکول آتے، کسی بھی کلاس میں جاتے سب بچے اور اساتذہ کھڑے ہوکر اُن کو خوش آمدید کہتے، اساتذہ کا حال احوال معلوم کرنے کے بعد کسی بھی بچے کو بُلاتے اور 15 روپے دے کر چائے اور کیک لینے بھیج دیتے تھے۔
اُستاد اس کوشش میں ہی رہتے تھے کہ پیسے ہم ادا کر دیں۔ پر وہ کسی کو جیب میں ہاتھ نہیں ڈالنے دیتے تھے اور ہمیشہ ہنس کر کہتے، اللہ نے مجھے اولاد نہ دے کر بھی صاحبِ اولاد رکھا ہے۔ مجھے آپ اپنے بچوں سے کیوں دور کرنا چاہتے ہیں؟ آپ مجھے میرا مال خرچ کرنے دیا کریں۔ جب بچہ چائے لیکر آتا تو ہمیشہ کی طرح کیک بچے کو کھانے کے لئے دے دیتے اور پھر سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوتا۔ مارکونی نے کیا ایجاد کیا تھا؟ معاشرتی علوم کسے کہتے ہیں؟ سر سید کون تھے؟ 30، 20 منٹ کے ’’انٹرایکشن‘‘ کے بعد وہ اپنے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے لئے یونین کونسل چلے جاتے تھے۔ ہم روز اُن کا انتظار کرتے کہ وہ کب ہماری کلاس میں آئیں گے اور اِس بار اُن کے کیا سوال ہوں گے؟ سارا اسکول اُنہیں ’’بابا جی‘‘ کہتا تھا۔ بابا جی کا ڈیرہ ہی اُن کا دفتر تھا جو ہر بڑے سے لیکر چھوٹے تک کے کُھلا رہتا تھا۔ کوئی اخبار پڑھنے جا رہا ہے، کوئی بابا جی کو نظم سنانے، کوئی ریڈیو سُننے اور کوئی جرگے کی کارروائی سننے۔ سارا گاؤں ہی ’’بابا جی ایک سوال ہے!‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتا تھا اور پھر بابا جی اُس سوال کے حل کیلئے گُتھیاں کھول کے تب تک بیٹھے رہتے جب تک اطمینان نہ ہوجاتا۔
میں اُس وقت 13 برس کا تھا جب ابا جی کے انتقال کے بعد تعزیت کے لئے آنے والے ہر شخص سے ملنے کا فرض اکلوتا ہونے کیوجہ سے امی اور قُدرت نے مجھے سونپا تھا۔ سب آتے ہاتھ ملا کر یا گلے لگ کر فاتحہ خوانی کرنے کے بعد چلے جاتے تھے۔ بابا جی بھی آئے ہوئے تھے وہاں، ایک قریبی عزیز سب سے کہنے لگے کہ ایک یتیم بچے کے سر پر ہاتھ رکھیں تو ہاتھ کے نیچے جتنے سر کے بال ہوتے ہیں اللہ تعالٰی اُتنی ہی نیکیاں نامہ اعمال میں لکھتے ہیں۔ وہ عزیز یہ کہہ کر میرے سر پر ہاتھ پھیر کر اور مجھے یتیمی کا احساس اور نیکیوں کی اس لوٹ سیل میں سب کے بھلے کے لئے نام پُکار کر کہنے لگے بھائی آپ بھی آجاؤ، بھائی آپ بھی آکر ہاتھ پھیرو۔ میری آنکھوں میں پانی پھیلنے لگا۔ میرا ضبط سخت آزمائش میں تھا۔
بابا جی کو یہ بہت ناگوار گُزرا، وہ اُٹھے میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور خاموشی سے سب دیکھتے رہے۔ جب سب نیکیوں سے جھولیاں بھر کر چلے گئے تو بابا جی بولے ’’بیٹے دُنیا صرف دلاسے اور جھوٹی تسلیوں اور جھوٹی حاضریوں کے لئے ہی سوگواوں کے پاس آتی ہے‘‘ جس کا دکھ ہوتا ہے ناں یہ بس اُسی کا دُکھ ہے اور کوشش کرنا کہ اپنے دکھوں کو کبھی مخلوق پر واضع نہ کرنا۔ خالق سے کہہ کر ہی دل ہلکا کرنا۔ دُکھ جب تک اللہ اور بندے کے آپس کا معاملہ رہتا ہے ناں، اللہ اُسے بھر دیتا ہے اور جب ہم اللہ کا کام لوگوں میں بانٹتے ہیں تو کام پھر پورا نہیں ہوتا ہے۔ یادوں کے نام پر پھر وہ زخم رِستے رہتے ہیں۔ لوگ رحم کی بھیک دیا کرتے ہیں وہ نہ لینا، اپنے آنسوؤں کو سنبھالنا اپنے رب کے حضور ہی انہیں دل کی کھیتی کو سیراب کرنے دینا۔ کبھی ہمت نہ ہارنا اور آگے بڑھتے رہنا، یاد رکھنا انسان انسانیت سے پہچانے جاتے ہیں برانڈڈ جوتوں کپڑوں والا نسیان نہ پال لینا۔ دل کو ظالم نہ کرنا۔ اپنے رب سے روز سوال پوچھنا، اپنی بُجھارتوں کو اللہ کے سامنے رکھنا، اپنے دل کی دستک کو کبھی طول نہ پکڑنے دینا۔
خود کو خود کے لئے وقف نہ کرنا، لوگوں کو معاف کرنا سیکھ لینا، اِس طرح کبھی دل پر بوجھ نہ پاؤ گے۔ اپنی بے وقوفیوں اور نادانیوں پر اپنے اللہ کے سامنے ذکر کرنا۔ اللہ سے ملنے کی چاہ میں زندگی بسر کرنا۔ اپنے دل کو قابو میں رکھنا اور اپنی خواہشوں کو لگام دینا۔ انہیں کبھی اتنی ڈھیل نہ دینا کہ یہ تمہاری عزتِ نفس کا سودا کر جائیں۔ وہ بے ربط ہوکر بول رہے تھے، میں نے نم آنکھوں سے اُن کے چہرے پر دیکھا تھا۔ بالکل پتھرائی ہوئی آنکھیں جو ماضی کے دھند لکوں میں جھانک کر مجھے انمول موتی چُن کر پیش کر رہی تھیں اور بیٹا کبھی کمینے آدمی کا احسان اور تُحفہ قبول نہ کرنا، غریبوں کے جنازے میں لازمی شرکت کرنا۔ وہاں جو بھی آتا ہے وہ اللہ کی نظروں میں ضرور آتا ہے۔ اور ہاں
’’یاد رکھنا میرے بچے تم اکیلے اس دنیا میں آئے ہو، اکیلے ہی قبر میں اُتارے جاؤ گے۔ دُنیا میں بھی انسان کا یا وہ خود ہوتا ہے یا اُس کا خدا ہوتا ہے۔ دوسروں سے اُمیدیں نہ باندھنا، سوائے یاس اور حزن کے کچھ نہیں ملے گا‘‘ َ
میں آج بھی سوچتا ہوں یہ بابے جو ہمارے سماج کا سائبان تھے آج کہاں چلے گئے ہیں؟ ہمیں اس طرح سے اب کیوں کوئی سمجھانے والا نہیں ملتا؟ اب کیوں کوئی اُنگلی پکڑ کر مشکلات کی پگڈنڈیوں پر لیکر نہیں چلتا ہے؟ ہماری ہر ایجاد میں اب گھڑی تو ہے مگر وقت کسی کے پاس نہیں ہے اور ہمارے سوال اب بھی بزرگوں کی راہ جھانکتے رہتے ہیں۔ پر پینشن کی لمبی لائنوں میں اُلجھے بابوں کے پاس اب وقت چھوڑا ہی کہاں ہے ہم نے!
No comments:
Post a Comment