جو قومیں اپنے ہیروز کو فراموش کر دیتی ہیں تاریخ بھی بہت جلد ان کو وقت کے قبرستان میں دفن کر دیتی ہے۔ کسی بھی قوم کی آنے والی نسلوں کا مان ان کے وہ بڑے لوگ اور ان کے کام ہوتے ہیں جن کو سامنے رکھ کر بچے اور نوجوان سر اٹھا کر جیتے ہیں اور پھر اپنے اپنے شعبے میں اپنے ہیرو کو سامنے رکھتے ہوئے اس جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اپنے محسنوں اور ہیروز کو بھی یا تو فراموش کر دیتے ہیں یا پھر تعصب کی عینک لگا کر انہیں ذات پات، مذہب اور فرقے کی بنا پر اہمیت دینے یا نہ دینے کا سوچتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے خطرناک عینک تعصب کی ہوتی ہے اور ہم لوگ اس عینک کا استعمال کچھ زیادہ ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک خداداد نے بلاشبہ زندگی کے ہر شعبہ میں انتہائی قابل لوگ پیدا کئے ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا میں منوایا۔ انہی قابل ترین اور بڑے لوگوں میں سے ایک نام ڈاکٹر عبدالسلام کا ہے ۔ جنہوں نے پاکستان کے لیئے پہلا نوبل پرائز جیتا اور دنیا بھر میں وطن کا نام روشن کیا ۔ فزکس کے شعبہ میں الیکٹرو ویو یونیفیکیشن میں ان کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے یہ اعزاز 15 اکتوبر 1979 کو انہیں دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب 29 جنوری 1926 کو پنجاب کے شہر جھنگ میں ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ صرف 14برس کی عمر میں انہوں نے میٹرک کے امتحان میں پنجاب میں سب سے زیادہ نمبر لینے کا ریکارڈ بنا ڈالا آور اس کے بعد تمام تعلیی درسگاہوں میں اپنی تعلیم مکمل ہونے تک سکالر شپ حاصل کرتے رہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے میتھ کے مضمون میں گریجویشن کی ان کے اعلی اردو اور انگریزی ادب کے ذوق کی وجہ سے ان کے اساتذہ انہیں انگریزی ادب میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا کہتے رہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کو قدرت نے کسی اور کام کے لیئے چنا ہوا تھا۔ گریجویشن کے بعد اپنے والد کے اصرار پر سول سروس کا امتحان دیا لیکن ریلوے کے محکمے کے مکینیکل ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد پھر میتھ کے مضمون میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد برطانیہ چلے گئے اور اعلی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور کوانٹم فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اسی دوران انہیں فزکس میں تحقیقاتی کام کی بدولت سمیتھ پرائز سے نوازا جا چکا تھا اور ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے جو کہ کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس کے متعلق تھا انہیں ایڈم پرائز سے بھی نوازا گیا۔
1951 میں وہ وطن واپس آئے اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں میتھ کے شعبے کے تدریسی عمل سے منسلک ہو گئے ۔ ڈاکٹر صاحب نے 1960 سے سن 1974 تک حکومت پاکستان کے سائنس ایڈوائزر کے طور پر کام کیا۔ اور وطن عزیز میں سائنس کے شعبے میں ریسرچ اور انفراسٹرکچر کی بنیاد رکھی ڈاکٹر صاحب سپارکو کے خالق بھی تھے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں تھیوریٹیکل فزکس گروپ کا شعبہ بھی انہوں نے ہی متعارف کروایا اور پاکستان کے لئے پر امن نیوکلیئر انرجی حاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اس کے علاوہ بطور سائنس ایڈوائزر ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لئے بھی اہم کردار کیا یہی وجہ تھی کہ جب 1998 میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کے اعتراف میں ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا جب کہ بہت عرصہ عرصہ قبل حکومت پاکستان انہیں ستارہ پاکستان اور نشان پاکستان کے اعزازات سے بھی نواز چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد احتجاجاً پاکستان کو چھوڑ کر انگلینڈ میں سکونت اختیار کر لی اور آخری ایام تک وہیں قیام پذیر رہے۔ 21 نومبر 1996ءکو ڈاکٹر صاحب انگلستان ہی میں وفات پا گئے اور یوں دنیائے فزکس کا ایک درخشندہ ستارہ اس دنیا کے افق سے غائب ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو محض ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نہ تو کتابوں اور نصاب میں کوئی خاص جگہ آج تک دی گئی ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی خاص کوشش تاحال سامنے آرہی ہے۔ 15 اکتوبر کو ڈاکٹر صاحب نے نوبل پرائز جیتا تھا لیکن شاید ہی اس روز کسی ٹی وی چینل پر آپ نے اس حوالے سے کوئی خبر یا پروگرام دیکھا ہو۔ اخبارات میں بھی شاید ایک چھوٹی سی خبر پڑھنے کو ملی ہو۔ وہ انسان جس نے عمر کا بیشتر حصہ پاکستان میں سائنس کے فروغ کیلئے صرف کیا، جس نے سائنس کے میدان میں وظائف بنا کسی رنگ نسل یا فرقے کی تفریق کے تمام مستحق پاکستانیوں میں بانٹے اور پاکستان کو پرویز ہود بھائی ، فہیم حسین، عبد الحمید نیر اور غلام دستگیر عالم جیسے قابل دماغ تیار کر کے دئیے، اسے محض احمدی ہونے کی بنا پر مسلسل نظر انداز کرنا اور آنے والے بچوں کو ان کی خدمات کا نہ بتا کر ہم بطور قوم خود اپنے ساتھ مسلسل زیادتی کر رہے ہیں۔
قابلیت اور علم کسی مذہب فرقے یا نسل کے محتاج نہیں ہوتے اور نہ ہی آنکھیں بند کر لینے یا کسی کی خدمات کا اعتراف نہ کرنے سے ہم اس کا قد چھوٹا کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو آج بھی پوری دنیا میں کوانٹم فزکس میں ان کی خدمات کے صلے میں انتہائی عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ نوبل پرائز جیتنے کے علاوہ انہوں نے بے شمار عالمی اعزازات بھی اپنے کام اور لگن کی بدولت حاصل کئے۔ سٹیفن ہاکنگ جیسا سائنسدان بھی ان کی تعریف کرتا نظر آتا ہے لیکن ہم لوگ محض نفرت و تعصب کے باعث ان کی خدمات کی تشہیر نہیں کرتے۔ انسان کبھی بھی اپنی مرضی سے کسی ہندو عیسائی مسلمان یا احمدی گھرانے میں پیدا نہیں ہوتا اور اگر ان کا فرقہ ان کی خدمات کی تشہیر میں رکاوٹ ہے تو پھر تو ہمیں اور بہت سے نام بھی اپنے نصابوں میں پیش کردہ مسخ شدہ تاریخ سے نکالنے ہوں گے۔ زرا سوچیے اگر ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے متعلق زیادہ سے زیادہ آگہی نئی نسلوں کو دی جائے اور پاکستان اور بین الاقوامی دنیا میں ان کی خدمات اور اعزازات سے متعلق چند بنیادی صفحات نصاب میں شامل کرنے کے علاوہ یونیورسٹی کی سطح پر ان کی تحقیقات کو بھی پڑھایا جائے تو ہم کتنے اور ڈاکٹر عبدالسلام اس وطن میں تیار کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ٹی وی چینلز بھی اس عظیم شخص کی خدمات کے حوالے سے ایسے اہم دنوں پر خصوصی پروگرامز نشر کریں تو ہم یقینا اپنے ان ہیروز کو اگلی نسلوں کو مشعل راہ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم تعصب کی عینک اتاریں۔ اور پاکستان میں بسنے والے اقلیتی گروہوں کو بھی اتنا ہی پاکستانی تسلیم کریں جتنا کہ ہم خود کو کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالسلام جیسے کئی عظیم لوگ ہماری تاریخ سے اور میڈیا کوریج سے محض اس لئے غائب کر دیئے جاتے ہیں کہ ان کا تعلق اقلیتوں سے ہوتا ہے ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی بہت کم لوگ اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کم سے کم ہم لوگوں کو اپنا قلم یا مائیک تو سچ اور غیر جانبدار معلومات پہنچانے کے لئے استعمال کرنا چاہیئے۔ جن معاشروں میں سچائی چھپانے کی روایت ہو اور سوالات اٹھانے پر پابندی عائد ہو، وہ معاشرے ادھورے اور منافق انسان تو پیدا کر سکتے ہیں لیکن مکمل انسان نہیں۔ سوال اٹھائیے کہ ہمارے ہیروز کو تعصب کی بنا پر کیوں ہمارے بچوں کے نصاب میں مکمل معلومات کے ساتھ شامل نہیں کیا جاتا۔ 29 جنوری کا دن ڈاکٹر عبدالسلام کی پیدائش کا دن ہے ان جیسے ہیروز کے جنم دن کو بھی قومی سطح پر منانا چاہیئے ۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو ان کی خدمات اور پاکستان کا نام روشن کرنے پر دل کی گہرائیوں سے سلام۔ آئیے اپنے محسنوں اور ہیروز کی دل سے بنا کسی تعصب کے عزت کرنا سیکھیں۔
No comments:
Post a Comment