وہ جرمن تھیں‘ برلن کی رہنے والی تھیں‘ بہن نے علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے شادی کر لی‘ وہ بہن کے ساتھ ہندوستان آ گئیں‘ نام ڈورس تھا‘ علامہ اقبال کی اہلیہ سردار بیگم کے انتقال کے بعد بچوں کی پرورش کےلئے گورننس کی ضرورت تھی‘ آپ نے اپنے تمام احباب کو لکھ کر بھیج دیا‘ چند خواتین آئیں لیکن وہ بچوں میں کم اور علامہ صاحب میں زیادہ دلچسپی لیتی تھیں چنانچہ بات نہ بن سکی‘ رشید احمد صدیقی علامہ صاحب کے دوست تھے‘ وہ علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے‘ انہوں نے ڈورس سے بات کی، پچاس ماہانہ معاوضہ طے ہوا‘ ڈورس لاہور آئیں اور ڈورس سے آنٹی ڈورس اور آپا جان بن گئیں‘ وہ ہمیشہ کےلئے علامہ صاحب کے خاندان سے جڑ گئیں۔
آنٹی ڈورس نے علامہ صاحب کا خاندان سنبھال لیا‘ وہ جرمن‘ انگریزی اور اردو تین زبانیں جانتی تھیں‘ کھانا پکانے کی ماہر تھیں‘ خانساماں کو جرمن کھانے‘ سوپ اور کیک بنانا سکھا دیئے‘ علامہ صاحب اہلیہ کے انتقال کے بعد سارا دن تہبند اور بنیان پہن کر گھر میں لیٹے رہتے تھے‘ وہ بھی ڈورس کے آنے کے بعد شلوار قمیض پہننے لگے‘ خاندان دوپہر کا کھانا بھی میز پر اکٹھا کھانے لگا‘ علامہ صاحب رات کے وقت جاوید اقبال اور منیرہ کو ساتھ بٹھا کر ڈورس کے ساتھ جرمن زبان میں گفتگو بھی کرتے تھے‘ ان کی خواہش تھی‘ ان کے بچے جرمن زبان سیکھیں‘ وہ اپنی صاحبزادی سے کہا کرتے تھے ” جرمن زبان سیکھو‘ جرمن عورتیں بہت بہادر ہوتی ہیں“ منیرہ اقبال کوشش کر کے تھوڑی بہت جرمن بھی سیکھ گئیں۔
آنٹی ڈورس کس قدر ایماندار اور پروفیشنل گورننس تھیں اور شاعر مشرق اور طوطی اسلام علامہ اقبال کس قدر معتدل انسان تھے‘ آپ اس کا اندازہ دو واقعات سے لگا لیجئے۔
علامہ صاحب نے منیرہ اقبال کو کنیئرڈ سکول میں داخل کرا دیا‘ یہ مشنری سکول تھا‘ یہ بعد ازاں لڑکیوں کا کنیئرڈ کالج بن گیا‘ آنٹی ڈورس منیرہ اقبال کی پراگریس رپورٹ لینے اکثر اوقات سکول جاتی تھیں‘وہ ایک بار سکول گئیں تو انہیں معلوم ہوا سکول میں بائبل کا مطالعہ لازمی ہے‘ آنٹی ڈورس پریشان ہو گئیں‘ انہوں نے انتظامیہ سے احتجاج کیا‘ آپ مسلمان بچی کو زبردستی بائبل کیسے پڑھا سکتی ہیں‘ وہ اس کے بعد علامہ اقبال کے پاس گئیں‘ انہیں بتایا‘ منیرہ کو سکول میں بائبل پڑھائی جا رہی ہے‘ آپ بچی کا سکول تبدیل کرا دیں‘ علامہ صاحب نے فرمایا ” یہ بری بات نہیں‘ بچی کو مختلف مذاہب کی تعلیمات کا علم ہونا چاہیے‘ آپ گھر میں قرآن مجیدپڑھانے کےلئے کس معلمہ کا بندوبست بھی کر لیں“ آنٹی ڈورس قائل نہ ہوئیں‘ انہوں نے منیرہ کو کنیئرڈ سکول سے اٹھا کر انجمن حمایت اسلام کے سکول میں داخل کرا دیا‘ یہ سکول اسلامی تھا لیکن اس کا معیار اچھا نہیں تھا چنانچہ چند ماہ میں بچی کے سر میں جوئیں پڑ گئیں‘ آنٹی ڈورس نے منیرہ کو اسلامی سکول سے اٹھوایا اور کوئین میری سکول میں داخل کرا دیا۔
علامہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطاءمحمد سخت مزاج کے قدامت پسند انسان تھے‘ وہ منیرہ اقبال کو غیر مسلم عورت کی دیکھ بھال میں دینے کے خلاف تھے‘ وہ اپنے اس اختلاف کا برملا اظہار کیا کرتے تھے علامہ صاحب خاموشی سے ان کی باتیں بھی سن لیتے تھے اور آنٹی ڈورس سے بھی مطمئن رہتے تھے‘ بچی کے تایا نے ایک دن ان کےلئے سیالکوٹ سے ایک چھوٹا سا ریشمی برقعہ بھجوا دیا‘ منیرہ کی عمر اس وقت سات سال تھی‘ برقعہ دیکھ کر آنٹی ڈورس غصے میں آگئیں‘ وہ برقعہ اٹھا کر سیدھی علامہ صاحب کے پاس گئیں اور ان سے کہا”کیا آپ اتنی چھوٹی سی بچی کو پردہ کرائیں گے“ علامہ صاحب نے مسکرا کر فرمایا ” میرے بڑے بھائی نے منیرہ سے محبت کا اظہار کیا ہے‘ آپ ان کا تحفہ رکھ لیں‘ منیرہ یہ برقعہ اوڑھے یہ ضروری نہیں“ علامہ صاحب نے مزید فرمایا ” میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا‘ منیرہ جب بڑی ہو گی تو خواتین میں پردہ رہے گا بھی یا نہیں“
آپ اس جرمن خاتون کی عظمت ملاحظہ کیجئے‘ وہ خود کٹڑ عیسائی تھی لیکن اس نے مسلمان بچی اور بچی بھی عالم اسلام کے سب سے بڑے سکالر علامہ اقبال کی بیٹی‘ کو بائبل نہیں پڑھنے دی‘ اس نے علامہ اقبال کے ”کوئی بری بات نہیں“ کے جواز کے باوجود سکول تبدیل کرا دیا‘ وہ فکری لحاظ سے اس قدر ایماندار خاتون تھی کہ وہ عیسائی ہونے کے باوجود اسلامی تعلیمات کو بچی کا حق سمجھتی تھی اور اس نے والد کے لچک دار رویئے کے باوجود بچی کو یہ حق دیا‘ وہ مشرقی معاشرے میں بھی رہتی تھی‘ وہ جانتی تھی ہندوستان کے مسلمان اپنی بچیوں کو بچپن ہی میں برقعہ اوڑھا دیتے ہیں اور علامہ اقبال کی صاحبزادی ہوتے ہوئے‘ مسلمان بچی ہوتے ہوئے اور لاہور کے کلچر کا حصہ ہوتے ہوئے منیرہ اقبال کو سات سال کی عمر میں برقعہ اوڑھنا چاہیے تھا لیکن وہ اس سماجی رسم کی قائل نہیں تھی چنانچہ وہ عیسائی خاتون جس نے بائبل پڑھانے پر بچی کا سکول تبدیل کرا دیا تھا وہ برقعہ دیکھ کر غصے میں آگئی اور اس نے علامہ صاحب سے باقاعدہ احتجاج بھی کیا‘ یہ دونوں واقعات ثابت کرتے ہیں‘ آنٹی ڈورس مذہب اور سماج کو الگ الگ حیثیت دیتی تھیں اور وقت آہستہ آہستہ اس سچائی کو مانتا جا رہا ہے۔
امریکا‘ یورپ اور مشرق بعید کے ترقی یافتہ لوگ مذہباً عیسائی ہیں لیکن یہ سماجی لحاظ سے لبرل ہیں‘ آپ کو دنیا کے ترقی یافتہ اسلامی ممالک میں بھی یہی ٹرینڈ نظر آئے گا‘ آپ کو ترکی‘ ملائشیا‘ دوبئی‘ مصر‘ اردن اور مراکش کے لوگ بھی مذہباً مسلمان لیکن معاشرتی لحاظ سے لبرل ملیں گے‘ آنٹی ڈورس اور علامہ اقبال دونوں اس حقیقت سے واقف تھے چنانچہ دونوں کے خیالات میں اشتراک تھا۔
علامہ صاحب اسلامی دنیا کے عظیم مفکر تھے‘ آپ کی سوچ نے پورے عالم اسلام کو متاثر کیا لیکن آپ کی بیٹی کو سکول میں بائبل پڑھائی جاتی ہے یا اس کی گورننس اسے برقعہ نہیں پہنانا چاہتی! علامہ اقبال کو ان دونوں باتوں پر کوئی اعتراض نہیں تھا‘ علامہ اقبال آخری دن تک شیو بھی کرتے رہے‘ آپ علامہ اقبال میوزیم یعنی جاوید منزل جائیں‘ آپ کو آج بھی علامہ صاحب کے بیڈ روم میں شیو کا سامان ملے گا‘ یہ سامان عجائب گھر کا حصہ ہے‘ علامہ صاحب کے دونوں صاحبزادے آفتاب اقبال اور جاوید اقبال ”فارن کوالی فائیڈ“ تھے‘ وہ کلین شیو بھی تھے اور لبرل بھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت میں اپنی گرل فرینڈز کی تصویریں بھی شائع کیں اور مغربی رقص سیکھنے اور کرنے کا اعتراف بھی کیا‘ جاوید اقبال نے یہ بھی تحریر کیا‘ علامہ صاحب گانا بھی سنتے تھے اور قوالی بھی۔یہ بات بھی حقیقت ہے‘ علامہ صاحب کو راگ اور الاپ کا بھی پورا پورا ادراک تھا‘ وہ اپنا کلام بھی باقاعدہ سر اور ترنم کے ساتھ سناتے تھے۔
اگر مصور پاکستان‘ اسلامی دنیا کے عظیم مفکر اور ہمارے علامہ صاحب اتنے لبرل اور اتنے معتدل تھے تو پھر ہم مصور پاکستان کے اس پاکستان میں کون سا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں؟ اور ہمارے ان علماءکرام‘ جن کی کوئی تقریر‘ کوئی خطاب علامہ صاحب کے تذکرے اور شعروں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا‘ ان علماءکرام کو یہ اقبال دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ یہ اقبال جس نے پوری زندگی شیو کی‘ جو مغربی لباس پہنتا رہا‘ جو جرمن اور انگریزی زبان جانتا تھا‘ جو مغربی ملکوں میں پڑھتا رہا‘ جس نے اپنی بیٹی کو مشنری سکولوں میں تعلیم دلائی‘ جس نے اپنے بچوں کی پرورش کی ذمہ داری اس عیسائی جرمن خاتون کو سونپ دی جو اتوار کے دن چرچ جاتی تھی‘ بائبل پڑھتی تھی اور کرسمس مناتی تھی! یہ اقبال کہاں ہے؟ یہ کہاں گیا؟
آپ مزید نوٹ فرمائیے‘ علامہ صاحب کی بیٹی کو رخصت بھی آنٹی ڈورس نے کیا تھا‘ وہ منیرہ اقبال کی شادی کے بعد برلن چلی گئیں لیکن وہ ہر سال سردیوں میں پاکستان آ جاتی تھیں اور ماں کی حیثیت سے علامہ صاحب کے بچوں کے ساتھ رہتی تھیں‘ وہ آخری عمر میں بیمار ہو گئیں‘ منیرہ نے اپنے بیٹے اقبال کو برلن بھیجا‘ اقبال انہیں ہاتھوں پر اٹھا کر لاہور لایا‘ منیرہ نے بیٹی کی طرح ان کی خدمت کی‘ آنٹی ڈورس نے لاہور میں انتقال فرمایا‘ وہ عیسائی تھیں‘علامہ صاحب کے خاندان نے انہیں مسیحی طریقے سے دفن کیا‘ میت مسیح تھی لیکن جنازے میں شریک لوگ مسلمان بھی تھے اور شاعر مشرق علامہ اقبال کی اولاد بھی۔ آنٹی ڈورس کی تدفین کے بعد جاوید اقبال نے مسیحی روایات کے مطابق بیٹے کی حیثیت سے باقاعدہ تقریر بھی کی‘ یہ عظیم خاتون گلبرگ کے مسیحی قبرستان میں دفن ہیں‘ جاوید اقبال کرسمس کے موقع پر ان کی تربت پر پھول بھی چڑھایا کرتے تھے۔آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے‘ حضرت علامہ اقبال ؒ ان لبرل اور معتدل رویوں کے باوجود دنیائے اسلام کے عظیم مفکر بھی تھے‘ وہ ایک عظیم مسلمان اور عالم دین بھی تھے اور سچے عاشق رسول بھی تھے اور ان کا حلیہ‘ ان کی معتدل طبیعت اور ان کی سماجی وسعت قلبی ان کے عشق رسول سے الجھی‘ ان کی اسلام سے محبت سے مزاحم ہوئی اور نہ ہی ان کے فکری اور علمی مقام کے راستے کی رکاوٹ بنی‘ کیوں؟
میں جب بھی علامہ اقبال اور قائداعظم کی حیات اور فکر پڑھتا ہوں تو میرے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے اگر ملک بنانے والے سچے اور کھرے عاشق رسول تھے؟ اگر وہ لوگ دل سے مسلمان تھے تو پھر ہم لوگ کیا ہیں؟ اگر ان کا معتدل اسلام اصل اسلام تھا تو پھر ہمارا سخت اور بے لچک اسلام کیا ہے؟ اور اگر وہ ایک ایسا ملک بنانا چاہتے تھے جس میں علامہ صاحب کی اولاد آنٹی ڈورس کے جنازے میں شریک ہو اور اس کا اسلام خطرے میں نہ پڑے تو پھر وہ اصل پاکستان کہاں ہے؟ ہمیں اصل علامہ اقبال کا وہ اصل پاکستان کہاں سے ملے گا؟
آئیے علامہ اقبال کے 138ویں یوم پیدائش پر وہ پاکستان تلاش کریں جو زندگی بھر علامہ صاحب کے قلب کو تڑپاتا اور ان کی روح کو گرماتا رہا‘ جس میں عیسائی آنٹی ڈورس علامہ اقبال کے بچوں کی اسلامی تربیت کر سکتی تھی اور علامہ اقبال کے مسلمان بچے آنٹی ڈورس کی تدفین میں شریک ہو سکتے تھے‘ آئیے اصل علامہ اقبال کے اس اصل پاکستان کو تلاش کریں۔
جاوید چوہدری
No comments:
Post a Comment