ساحر کا اصل نام عبدالحئی تھا۔ ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر۔ 8 مارچ 1921ء کو لدھیانہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ خالصہاسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے میں داخلہ لیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کردیا۔ امرتا پریتم کے عشق میں کالج سے نکالے گئے۔ تقسیم ہند سے پہلے کے برسوں میں اپنی انگریز دشمنی کی بناء پر ساحر کو لدھیانہ چھوڑ کر لاہور جانا پڑا، جہاں اُنہوں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ لاہور میں رہتے ہوئے اُن کے فن کو اور جلا ملی، وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے اور اُن کا نام فیض، علی سردار جعفری، کیفی اور مجاز جیسے نامور شعراء کے ساتھ لیا جانے لگا۔ یہاں ترقی پسند نظریات کی بدولت قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں ان کے وارنٹ جاری ہوئے جس کے بعد وہ ہندوستان چلے گئے۔
ہندوستان میں وہ سیدھے بمبئی میں وارد ہوئے۔ ان کا قول مشہور ہے کہ بمبئی کو میری ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں ساحر اور دوسرے ترقی پسند شعراء نے بھانپ لیا تھا کہ فلم ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے اپنی بات عوام تک جس قوت اور شدت سے پہنچائی جا سکتی ہے، وہ کسی اور میڈیم میں ممکن نہیں ہے۔ چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساحر ایک مشن کے تحت بمبئی گئے اگرچہ 1949ء میں ان کی پہلی فلم "آزادی کی راہ پر" قابلِ اعتنا نہ ٹھہری، لیکن موسیقار سچن دیو برمن کے ساتھ 1950ء میں فلم "نوجوان" میں ان کے لکھے ہوئے نغموں کو ایسی مقبولیت نصیب ہوئی کہ آپ آج بھی آل انڈیا ریڈیو سے انھیں سن سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک گانے "ٹھنڈی ہوائیں" کی دھن تو ایسی ہٹ ہوئی کہ عرصے تک اس کی نقل ہوتی رہی۔
’تلخیاں‘ کے نام سے ساحر کا پہلا شعری مجموعہ 1943ء ہی میں شائع ہو چکا تھا۔ ’گاتا جائے بنجارہ‘ گیتوں کا انتخاب تھا۔ ’آؤ کہ کوئی خواب بُنیں‘ اُن کا دوسرا مجموعہٴ کلام تھا، جو 1971ء میں شائع ہوا۔ اُنہیں اُن کی ادبی خدمات کے بدلے میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں حکومتِ بھارت کی جانب سے 1971ء میں دیا جانے والی پدم شری کا اعلیٰ اعزاز بھی شامل تھا۔
اُن کا انتقال پچیس اکتوبر 1980ء کو 59 برس کی عمر میں ہوا۔
ہندوستان میں وہ سیدھے بمبئی میں وارد ہوئے۔ ان کا قول مشہور ہے کہ بمبئی کو میری ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں ساحر اور دوسرے ترقی پسند شعراء نے بھانپ لیا تھا کہ فلم ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے اپنی بات عوام تک جس قوت اور شدت سے پہنچائی جا سکتی ہے، وہ کسی اور میڈیم میں ممکن نہیں ہے۔ چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساحر ایک مشن کے تحت بمبئی گئے اگرچہ 1949ء میں ان کی پہلی فلم "آزادی کی راہ پر" قابلِ اعتنا نہ ٹھہری، لیکن موسیقار سچن دیو برمن کے ساتھ 1950ء میں فلم "نوجوان" میں ان کے لکھے ہوئے نغموں کو ایسی مقبولیت نصیب ہوئی کہ آپ آج بھی آل انڈیا ریڈیو سے انھیں سن سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک گانے "ٹھنڈی ہوائیں" کی دھن تو ایسی ہٹ ہوئی کہ عرصے تک اس کی نقل ہوتی رہی۔
’تلخیاں‘ کے نام سے ساحر کا پہلا شعری مجموعہ 1943ء ہی میں شائع ہو چکا تھا۔ ’گاتا جائے بنجارہ‘ گیتوں کا انتخاب تھا۔ ’آؤ کہ کوئی خواب بُنیں‘ اُن کا دوسرا مجموعہٴ کلام تھا، جو 1971ء میں شائع ہوا۔ اُنہیں اُن کی ادبی خدمات کے بدلے میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں حکومتِ بھارت کی جانب سے 1971ء میں دیا جانے والی پدم شری کا اعلیٰ اعزاز بھی شامل تھا۔
اُن کا انتقال پچیس اکتوبر 1980ء کو 59 برس کی عمر میں ہوا۔
No comments:
Post a Comment