کسی بھی پاکستانی مسلمان کے لیے درگاہ کی زیارت کرنا اور وہاں فقیروں، گداگروں اور سائلوں کو پیسے دینا ایک عام بات ہے۔
لیکن درگاہ پر جانے والے زائرین کی اسی فراخ دلی اور خدا ترسی نے پاکستان میں ’بھیک مافیا‘ کو جنم دیا ہے۔ جو ہزاروں پاکستانی بچوں کو بھکاری بننے پر مجبور کر رہے ہیں۔
پاکستان کے اکثر شہروں اور قصبوں میں صوفیا کرام کی کئی درگاہیں موجود ہیں۔ عام طور پر انھیں صوفی اور درویش تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کی درگاہوں پر لوگ کثیر تعداد میں منتیں اور دعائیں مانگنے آتے ہیں۔
یہ درگاہیں بھکاریوں کے لیے ہمیشہ کشش رکھتی ہیں۔ بھکاریوں میں بچوں کی بھی بڑی تعداد ہے ۔بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے زائرین اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ بھیک دینے سے ان کی منتوں کے پورا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
فلاحی تنظیم روشنی ہیلپ لائن کے بانی محمد علی کہتے ہیں ’بھکاری بنانے کے لیے بچوں کو اغوا کیا جاتا اور مختلف بھیک مافیا گروہوں کے درمیان ان بچوں کی تجارت ہو رہی ہے۔ سال 2010 میں صرف کراچی شہر سے 3،000 بچے لاپتہ ہوئے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ان لاپتہ بچوں میں سے بہت سے بچوں کو مختلف درگاہوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ ان کے سر منڈوا دیے جاتے ہیں۔ ان کے جسم پر نشان ڈالے جاتے ہیں۔ ان شکل و صورت کو اس طرح بدل دیا جاتا ہے کہ ان کے والدین انھیں پہچان نہ سکیں۔‘
’بھیک مانگنے کا کام اتنے بڑے پیمانے پر ہے کہ پولیس بھی ان بچوں سے شاید ہی کبھی پوچھتی ہے کہ یہ ان درگاہوں تک کیسے پہنچے۔‘
کسی بھی پاکستانی درگاہ پر کچھ وقت گزارتے ہی آپ کو پتہ چل جائے گا کہ جو فقیر جسمانی طور پر جتنا معذور اور مجبور نظر آتا ہے لوگ ان کی جانب اسی قدر زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور اُسے بھیک میں زیادہ پیسے ملتے ہیں۔
علی کہتے ہیں کہ ’بعض بچے جو معذور نہیں ہوتے انہیں بھیک مانگنے کے لیے معذور بنا دیا جاتا ہے۔‘
علی بتاتے ہیں ’ہم نے ایسے کئی واقعے دیکھیں ہیں جن میں بچوں کو معذور بنا دیا گیا ہے۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے ہیں۔ ان کے بال کُتر دئیے جاتے ہیں یا ایک آنکھ نکالی جا سکتی ہے۔ یہ سب کرنے کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ یہ بچے رحم اور ہمدردی کے زیادہ مستحق نظر آئیں اور بدلے میں زیادہ رقم پائیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اغواکار قدرتی طور پر معذور بچوں کی تلاش میں زیادہ رہتے ہیں۔
پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر حیدرآباد شہر میں ٹیکسی ڈرائیور میر محمد اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
کچھ ہی دن پہلے اس خاندان کا بڑا بیٹا ممتاز لاپتہ ہو گیا۔
میر محمد کہتے ہیں’میرا بیٹا معذور ہے۔ ہم اس کے لیے سب کچھ کرتے تھے۔ وہ یہیں سڑک پر اپنی ویل چیئر میں پڑا ہوا تھا لیکن وہ ہمیں نہیں ملا۔‘
میر محمد نے کہا’لوگوں نے بتایا کہ میرے بیٹے کو بعض افراد زبردستی رکشے میں بٹھا کر لے گئے ہیں۔ وہ ضرور بھیک مافیا گروہ کے لوگ ہوں گے۔ ممتاز جیسے لڑکے اُن کے لیے بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ ہم اُسے ہر ایک درگاہ پر تلاش کر رہے ہیں لیکن وہ مل نہیں رہا۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ گھر واپس آ جائے. ہم اس کے لیے بے چین ہیں۔‘
روشنی ہیلپ لائن کے کارکنوں نے درگاہوں پر ممتاز کی تصویر تقسیم کی ہے۔ انہوں نے پولیس سے بھی ممتاز کی تلاش میں تعاون کرنے کی گزارش کی ہے۔
پورے پاکستان میں غائب ہونے والے بچوں اور درگاہوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ممتاز جیسے بہت سے بچے اپنے گھر کبھی واپس نہیں آ سکیں گے۔
پاکستان کی معروف درگاہوں میں پنجاب کے علاقے گجرات میں صوفی دولے شاہ کی درگا ہے۔ یہ عوام کی توجہ کا مرکز ہے اور سارے پنجاب سے وہاں لوگ جاتے ہیں بطور خاص بے اولاد خواتین اِس درگاہ پر جاتی ہیں۔
اس درگاہ کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہیں۔
جینیاتی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر قاسم مہدی کہتے ہیں ’پاکستان میں جینیاتی امراض کی شرح بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ قریبی راشتے داروں میں شادی ہے۔ پہلے یہ روایت تھی کہ لوگ اپنے معذور بچے کو درگاہ پر چھوڑ جاتے تھے۔‘
اب اس پر پابندی لگا دی گئی ہے اور ایسے بچے اب نظر نہیں آتے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ’تہذیبی تبدیلی‘ کی ضرورت ہے تاکہ استحصال کرنے پر مالی انعام بند ہو۔
اُن کا کہنا ہے کہ’درگاہوں پر جانے والے لوگ آج بھی فقیروں کو پیسے دینا چاہتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کے دیئے ہوئے پیسے کہاں جائیں گے یا پھر بھیک مانگنے والا شخص درگاہ تک کیسے پہنچا۔‘
روشنی ہیلپ لائن کے محمد علی عام لوگوں کے درمیان اس موضوع پر بحث کر کے معاشرے میں ’ثقافتی اور تہذیبی تبدیلی‘ لانا چاہتے ہیں۔
علی کہتے ہیں کہ ’مجرم گروہوں سے تو پولیس کو نمٹنا چاہئے لیکن ان گروہوں سے بڑا مسئلہ ہے لوگوں میں توہم پرستی۔ ہمیں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ ان معذور بچوں کا درگاہ پر چھوڑ دینا یا درگاہ پر بھیک مانگنے والے بچوں کو بھیک دینا کوئی اسلامی روایت نہیں ہے۔‘
علی کے مطابق ’ہمیں بار بار یہ سوال کو اٹھانا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ یہ بچے آتے کہاں سے ہیں؟ تبھی ہم اس مسئلہ سے نجات حاصل کر سکیں گے۔‘
مبین اظہر
بی بی سی ورلڈ سروس
No comments:
Post a Comment