"میں سوچتا ہوں ابّو، بڑھاپا پاکستان میں ہی گزاروں. ساٹھ
ستر سال کی عمر میں یہیں آجاؤں گا. انسان کو دفن اپنی مٹی میں ہی ہونا
چاہیے ھے نا"؟
وہ مجھ سے اپنی حب الوطنی کی داد چاہ رہا تھا۔ میں نے اسکا چہرہ دیکھا اور کہا: "پاکستان کو تمہاری قبروں
وہ مجھ سے اپنی حب الوطنی کی داد چاہ رہا تھا۔ میں نے اسکا چہرہ دیکھا اور کہا: "پاکستان کو تمہاری قبروں
اور تابوتوں کی ضرورت نہیں ہے. پاکستان کو تمہاری جوانی اور وہ گرم خون
چاہیے جو تمہاری رگوں میں خواب اور آئڈیئلزم بن کر دوڑتا ہے. اگر پاکستان
کو اپنی جوانی نہیں دے سکتے تو اپنا بڑھاپا بھی مت دو. جس ملک میں تم جینا
نہیں چاہتے وہاں مرنا کیوں چاہتے ہو…... باہر کی مٹی کی ٹھنڈک مرنے کے بعد
برداشت نہیں ہوگی تب اپنی مٹی کی گرمی چاہیے؟ نہیں شاہد جمال، آپ وہیں رہیں
جہاں آپ رہ رہے ہیں. ہر شخص کے مقدّر میں باوطن ہونا نہیں لکھا ہوتا. بعض
کے مقدّر میں جلا وطنی ہوتی ہے، اپنی خوشی سے اختیار کی جانے والی جلا
وطنی"۔
اقتباس: عمیرہ احمد کے ناول "مٹھی بھر مٹی" سے۔
اقتباس: عمیرہ احمد کے ناول "مٹھی بھر مٹی" سے۔
No comments:
Post a Comment