لکھنے کا ارادہ کیا ہے تو اس رات سے شروع کرتا ہوں جس نے مجھے بہت حد تک بدل دیا۔ ایک کربناک اور دکھ بھری رات 20 نومبر 2015
20 نومبر 2015، وہ رات جس رات میری ماں جی کا انتقال ہوا۔ تقریباََ 19 دن ہوئے تھے میری نوکری شروع ہوئے۔ سو کر اٹھا تھا کہ شام کے وقت بڑے بھائی کی کال آئی کہ امی کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے تو تم جتنا جلد ہوسکے آ جاؤ۔ ائیر پورٹ آفس کال کرکے چھٹی لی۔
فیصل آباد کےلئے نکل پڑا۔ کافی مشکل کے بعد جب کوئی بھی بس یا ٹرین نہ مل سکی تو ڈائیو کی سیٹ لی، لیکن اس دن بس بھی لیٹ نکلی۔ 12:30 کی سیٹ کروائی ہوئی اور جب بس ملتان سے نکلی تو 1:15 کا وقت تھا۔ ابھی بس ملتان سے نکلی ہی تھی کہ بھائی کی کال آئی کہ کہاں ہو ؟ اگر ملتان سے نہیں نکلے تو فیصل آباد آنے کی بجائے ایسا کرو کہ تم گھر رحیم یار خان چلے جاؤ۔
(دل میں جو ڈر تھا کہ ماں جی نہیں رہیں اس کے باوجود)میں نے پوچھا کہ کیوں کیا ہوا ؟بھائی نے نارمل رہتے ہوئے کہا کہ کچھ نہیں بس ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے۔ ہم امی کو لےکر گھر واپس آ رہے ہیں۔ میں نے کوئی بھی جواب دئیے بنا اچھا کہہ کر دل میں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور فون بند کردیا۔بھائی نے کچھ دیر بعد دوبارہ فون کرکے بتایا کہ امی نہیں رہی 😪😪😪😥😭 حوصلہ رکھنا۔
اس ایک پل میں میری زندگی ختم ہوگئی۔ میں نے کچھ بولے بنا فون بند کردیا۔ ایک قیامت تھی، جو آئی اور گزر گئی۔ نا ہی مجھے موت آئی، نا ہی میری بس کی سپیڈ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں بھی کم ہوئی۔ میری ساتھ والی سیٹ پر جو بیٹھا تھا وہ بیٹھا آرام سے سو رہا تھا۔ اس کو نہیں پتا کہ اس کے ساتھ والے پر کیسی قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہوسکتا کہ اس کی زندگی کے اپنے مسئلے ہوں جو وہ بس چلتے ہی سو گیا۔
اس رات میں نے جانا اس فقرے کا مطلب'Everyone yOu meet is fighting a battle yOu knOw nothing about. Be kind. Always.'
وہ رات ہے اور آج کی رات ہے، میں رات کو بہت کم کبھی سکون سے سویا ہوں گا۔ مجھے آج بھی وہ رات خواب میں نظر آتی ہے، کوئی مجھے بتا رہا ہوتا ہے کہ امی نہیں رہی اور جب میری آنکھ کھولتی ہے تو اس میں آنسو ہوتے ہیں۔ اس رات کے بعد میں لوگوں کے احساسات کے بارے میں حساس ہوگیا بہت اور کچھ احساسات کے بارے میں تلخ ہوگیا۔ ایک رات انسان پر کیا اثر ڈالتی ہے۔ اس رات مجھے پتا چلا اس کا۔ اس سرد رات کا میری زندگی میں اس کے بعد بہت اثر رہا اور ماں کی موت تو ویسے ہی جیتے جاگتے بندے کو چلتا پھرتا مردہ بنانے کےلئے کافی ہوتی۔
اللہ سے دعا ہے کہ ماں جی کے درجات بلند فرمائے۔ انہوں نے کینسر سے لڑتے ہوئے 2 سال جتنی بھی تکالیف اٹھائیں، آخرت میں انہیں اتنا ہی سکون نصیب کرے۔
بہت سے لوگوں نے کہا کہ مجھے دوبارہ لکھنا شروع کردینا چاہیئے۔ شاید صرف یہ ایک تحریر تھی، جس کی وجہ میں دوبارہ کبھی لکھنا نہیں چاہتا تھا اور جس کے بنا میں دوبارہ لکھنا شروع نہیں کرسکتا تھا۔ شاید تحریر کی شکل میں کچھ غم، کچھ درد ہلکا ہوا ہو۔
اللہ سے دعا ہے کہ تمام لوگوں کے ماں باپ کو اچھی صحت نصیب کرے اور انہیں حیات رکھے، ان کا سایہ تاقیامت ان کے سروں پر قائم رکھے۔ آمین۔
خودکلامی: ابرارالزمان تحریر: 6 فروری 2018
خودکلامی: ابرارالزمان تحریر: 6 فروری 2018
No comments:
Post a Comment