 قصے ادھورے رہ جاتے ہیں، باتیں ادھوری رہ جاتی ہیں،
زندگی تو چلتی ہے، اس نے تو چلنا ہے،
شور بلند ہوتا ہے، آوازیں بلند ہوتی ہیں،
سکون بھی ہو جاتا ہے، دل تو ڈھرکتا ہے،
غم بھی ہوتا ہے، ساتھ درد بھی ہوتا ہے،
یہ تو زندگی کی سوغاتیں ہیں،
انہیں ساتھ لے کر تو چلنا ہی ہے،
پیار، محبت، عشق، جنون،
کب اس دنیا کی باتیں ہیں،
یہ باتیں پرانی ہوئیں، آؤ اب گھر چلتے ہیں۔
راستے کے ساتھی، راستے میں بچھڑ گئے،
اب کس کا انتظار ہے، کس کو آنکھیں دیکھتی ہیں،
زندگی کی گاڑی خود ہی چلانی پڑی ہے،
چلو ابرار گھر چلیں، شام بھی اب تو چلی گئی۔
ازقلم: ابرارالزمان
تحریر: 6 فروری 2018
قصے ادھورے رہ جاتے ہیں، باتیں ادھوری رہ جاتی ہیں،
زندگی تو چلتی ہے، اس نے تو چلنا ہے،
شور بلند ہوتا ہے، آوازیں بلند ہوتی ہیں،
سکون بھی ہو جاتا ہے، دل تو ڈھرکتا ہے،
غم بھی ہوتا ہے، ساتھ درد بھی ہوتا ہے،
یہ تو زندگی کی سوغاتیں ہیں،
انہیں ساتھ لے کر تو چلنا ہی ہے،
پیار، محبت، عشق، جنون،
کب اس دنیا کی باتیں ہیں،
یہ باتیں پرانی ہوئیں، آؤ اب گھر چلتے ہیں۔
راستے کے ساتھی، راستے میں بچھڑ گئے،
اب کس کا انتظار ہے، کس کو آنکھیں دیکھتی ہیں،
زندگی کی گاڑی خود ہی چلانی پڑی ہے،
چلو ابرار گھر چلیں، شام بھی اب تو چلی گئی۔
ازقلم: ابرارالزمان
تحریر: 6 فروری 2018Mr. Abrar uz-Zaman (ابرارالزمان) belongs to Rahim yar khan, Pakistan. Founder & President of The FREEDOM Society. Abrar is self-motivated and a patriotic person with a clear vision of life and also live with spirit of serving humanity. He is an inspiring Human Rights, Peace and Youth Activist and working with many other organizations on National and International level. His main goal of life is Peace, Love and freedom for World Humanity.
Tuesday, 6 February 2018
قصے ادھورے رہ جاتے ہیں
 قصے ادھورے رہ جاتے ہیں، باتیں ادھوری رہ جاتی ہیں،
زندگی تو چلتی ہے، اس نے تو چلنا ہے،
شور بلند ہوتا ہے، آوازیں بلند ہوتی ہیں،
سکون بھی ہو جاتا ہے، دل تو ڈھرکتا ہے،
غم بھی ہوتا ہے، ساتھ درد بھی ہوتا ہے،
یہ تو زندگی کی سوغاتیں ہیں،
انہیں ساتھ لے کر تو چلنا ہی ہے،
پیار، محبت، عشق، جنون،
کب اس دنیا کی باتیں ہیں،
یہ باتیں پرانی ہوئیں، آؤ اب گھر چلتے ہیں۔
راستے کے ساتھی، راستے میں بچھڑ گئے،
اب کس کا انتظار ہے، کس کو آنکھیں دیکھتی ہیں،
زندگی کی گاڑی خود ہی چلانی پڑی ہے،
چلو ابرار گھر چلیں، شام بھی اب تو چلی گئی۔
ازقلم: ابرارالزمان
تحریر: 6 فروری 2018
قصے ادھورے رہ جاتے ہیں، باتیں ادھوری رہ جاتی ہیں،
زندگی تو چلتی ہے، اس نے تو چلنا ہے،
شور بلند ہوتا ہے، آوازیں بلند ہوتی ہیں،
سکون بھی ہو جاتا ہے، دل تو ڈھرکتا ہے،
غم بھی ہوتا ہے، ساتھ درد بھی ہوتا ہے،
یہ تو زندگی کی سوغاتیں ہیں،
انہیں ساتھ لے کر تو چلنا ہی ہے،
پیار، محبت، عشق، جنون،
کب اس دنیا کی باتیں ہیں،
یہ باتیں پرانی ہوئیں، آؤ اب گھر چلتے ہیں۔
راستے کے ساتھی، راستے میں بچھڑ گئے،
اب کس کا انتظار ہے، کس کو آنکھیں دیکھتی ہیں،
زندگی کی گاڑی خود ہی چلانی پڑی ہے،
چلو ابرار گھر چلیں، شام بھی اب تو چلی گئی۔
ازقلم: ابرارالزمان
تحریر: 6 فروری 2018
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
 
 
No comments:
Post a Comment