Wednesday, 4 April 2018

ذوالفقارعلی بھٹو (5 جنوری 1928 تا 4 اپریل 1979)

آج پاکستان کے سابق صدر اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی انتالیسویں برسی منائی جارہی ہے
جناب ذوالفقار علی بھٹو کو 18 مارچ 1978ءکو نواب احمد خان کے قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہوں نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر وہاں یہ اپیل مسترد ہوگئی، پھر سپریم کورٹ نے نظرثانی کی اپیل بھی مسترد کردی۔ دنیا بھر کے 54 سربراہان مملکت، بہت سی عالمی تنظیموں اور ملک کے اندر بھی بہت سی نمایاں شخصیات نے صدر ضیاءالحق سے رحم کی اپیل کی مگر یکم اپریل 1979ءکو صدر مملکت نے ان تمام اپیلوں کو مسترد کرکے بھٹو کی قسمت کا فیصلہ صادر کردیا۔
تین اپریل 1979ءکو محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو سے آخری ملاقات کی، یہ ملاقات تقریباً چار گھنٹے جاری رہی۔ اسی رات یعنی 4 اپریل 1979ء کو2 بج کر 4 منٹ پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ ان کی میت صبح 7 بج کر 10 منٹ پر ایک سی 130 طیارے کے ذریعہ جیکب آباد پہنچائی گئی جہاں سے اسے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعہ گڑھی خدا بخش لے جایا گیا۔ بھٹو کے قریبی رشتہ داروں کو میت کی آمد کے بارے میں پہلے ہی مطلع کردیا گیا تھا اور فوجی جوانوں نے ان کے آبائی قبرستان میں ان کی قبر پہلے ہی تیار کر رکھی تھی۔
بھٹو کی میت 8 بج کر 10 منٹ پر گڑھی خدا بخش پہنچی۔ جہاں اس لاش کو مرحوم کے رشتہ داروں اور سول حکام کے حوالے کردیا گیا۔ لاش کے آخری دیدار کے بعد صبح 9 بجکر 20 منٹ پر گڑھی خدا بخش کی جامع مسجد کے امام محمود احمد بھٹو نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کے معدودے چند افراد نے شرکت کی۔ 9 بج کر 40 منٹ پر میت کو اس مسجد کے نزدیک بھٹو کے آبائی قبرستان میں لے جایا گیا جہاں 10 بجکر 30 منٹ تک تدفین کی رسومات مکمل ہوچکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
اب گڑھی خدا بخش میں ذوالفقارعلی بھٹو کی قبر پر ایک شاندار مقبرہ تعمیر کیا جاچکا ہے جسے ممتاز آرکیٹیکٹ وقار اکبر رضوی نے ڈیزائن کیا ہے۔ بھٹو کے دونوں صاحبزادگان میر مرتضیٰ بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو اور ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی مقبرے میں آسودہ خاک ہیں۔
x

No comments:

Post a Comment