Saturday, 25 August 2018

احمد فراز صاحب کو آج ہم سے بچھڑے 10 سال بیت گئے

احمد فراز: 4 جنوری 1931 تا 25 اگست 2008

احمد فراز4  جنوری 1931 میں کوہاٹ پاکستان میں پیدا ہوۓ۔ اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ ایڈورڈ کالج (پشاور) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کےلئے فیچر لکھنے شروع کیے۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ " تنہا تنہا " شائع ہوا تو
وہ بی اے میں تھے۔

تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علیحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کر لی۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ " درد آشوب " چھپا جس کو پاکستان رائٹرز گڈز کی جانب سے " آدم جی ادبی ایوارڈ "" عطا کیا گیا ۔

یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوۓ ۔ انہیں 1976 ء میں اکا دکی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا ۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبورا جلا وطنی اختیار کرنی پڑی ۔
آپ 2006 ء تک "" نیشنل بک فاؤنڈیشن ""کے سربراہ رہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انہیں "" نیشنل بک فاؤنڈیش "" کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ۔ احمد فراز نے 1988 ء میں"" آدم جی ادبی ایوارڈ "" اور 1990ء میں"" اباسین ایوارڈ "" حاصل کیا ۔ 1988 ء مین انہیں بھارت میں "" فراق گورکھ پوری ایوارڈ "" سے نوازا گیا ۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر ( کینڈا ) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا ، جب کہ بھارت میں انہیں 1992 ء میں ""ٹاٹا ایوارڈ "" ملا۔

انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے ۔ ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے ۔ جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع "" احمد فراز کی غزل "" ہے ۔ بہاولپور میں بھی "احمد فراز ۔فن اور شخصیت" کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا ۔ ان کی شاعری کے انگریزی ،فرانسیسی، ہندی، یوگوسلاوی، روسی،جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں

احمد فراز جنہوں نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی، اپنی شاعری کے زمانۂ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردار کے خلاف شعر کہنے کے سبب کافی شہرت پائی۔ انہوں نے ضیاالحق کے مارشل لا کے دور کے خلاف نظمیں لکھیں جنہیں بہت شہرت ملی۔ مشاعروں میں کلام پڑھنے پر انہیں ملٹری حکومت نے حراست میں لیے جس کے بعد احمد فراز کوخود ساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنا پڑی۔

سنہ دوہزار چار میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں انہیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انہیں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔ احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی۔

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جیسے سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہیں خرابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کرلو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
نا خدا ہے نا میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انسان ہے تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں ، نہ وہ تو ، نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں

No comments:

Post a Comment