آج اردو کے خوب صورت لب و لہجے والے شاعر فیض احمد فیض کی 34ویں برسی ہے
فیض احمد فیض 13 فروری1911ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔
وہ بلاشبہ اس عہد کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ ایسے شاعر اور ایسے انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ انہوں نے ساری زندگی ظلم، بے انصافی اور جبر و استبداد کے خلاف جدوجہد کی اور ہمیشہ شاعر کا منصب بھی نبھایا۔
وہ اردو شاعری کی ترقی پسند تحریک کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ ان کی فکر انقلابی تھی، مگر ان کا لہجہ غنائی تھا۔ انہوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت سے انقلابی فکر اور عاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی اور ایک نئی طرز فغاں کی بنیاد پڑی جو انہی سے منسوب ہوگئی۔
فیض نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا اور انہی کی بدولت اردو شاعری سربلند ہوئی۔ فیض نے ثابت کیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے لئے نہیں بلکہ ہر خطے اور ہر زمانے کے لئے ہوتی ہے۔
نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہریاراں اور مرے دل مرے مسافر ان کے کلام کے مجموعے ہیں اور سارے سخن ہمارے اور نسخہ ہائے وفا ان کی کلیات۔
اس کے علاوہ نثر میں بھی انہوں نے میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور مہ و سال آشنائی جیسی کتابیں
یادگار چھوڑیں۔
فیض احمد فیض 20 نومبر 1984ء کولاہور میں وفات پاگئے اورلاہور ہی میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
حکومت پاکستان نے ان کے انتقال کے بعد انہیں نشان امتیاز کے اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
No comments:
Post a Comment