فیصل آباد - پاکستان
فیصل آباد کی اہم خصوصیت شہر کا مرکز ہے، جو ایک ایسے مستطیل رقبے پر مشتمل ہے، جس کے اندر جمع اور ضرب کی اوپر تلے شکلوں نے اسے 8 حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اس کے درمیان میں، جہاں آ کر آٹھوں سڑکیں آپس میں ملتی ہیں، مشہورِ زمانہ گھنٹہ گھر کھڑا ہے۔ گھنٹہ گھر کے مقام پر ملنے والی آٹھوں سڑکیں شہر کے 8 اہم بازار ہیں، جن کی وجہ سے اسے آٹھ بازاروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ گھنٹہ گھر سے شروع ہو کر بیرونی طرف پھیلتے ہوئے بازار اس جگہ کو برطانوی پرچم کی شکل دیتے ہیں، جو سر جیمزلائل نے اپنے ملک کی یادگار کے طور پر یہاں چھوڑا ہے۔
فیصل آباد پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے، جس کا سابق نام لائل پور (Lyallpur) تھا۔ 1979ء میں اسے سعودی عرب کے سابق بادشاہ شاہ فیصل کے نام پر فیصل آباد کا نام دیا گیا۔ اپنے دیہاتی تمدن کی وجہ سے ایک وقت تک اسے ایشیا کا سب سے بڑا گاؤں کہا جاتا تھا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم شہر بن کر نمودار ہوا اور اب اسے کراچی اور لاہور کے بعد پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دنیا کے عظیم قوال و موسیقار نصرت فتح علی خان کا تعلق اسی شہر سے تھا۔
پکا ماڑی (پکی ماڑی) : 1890ء کے لگ بھگ طارق آباد کے قریب واقع شہر کی سب سے قدیم بستی
ساندل بار: لائلپور کے قیام سے قبل یہ زرخیز میدانی علاقہ ساندل بار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
لائل پور : 1896ء میں جھنگ کی تحصیل کے طور پر برطانوی راج کے لیفٹیننٹ گورنر جیمز براڈووڈ لائل کے نام سے موسوم لائلپور کے نام سے شہر کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔
فیصل آباد : 1979 میں ڈویژنل صدر مقام بناتے وقت سعودی فرمانروا شاہ فیصل شہید کے نام سے موسوم کیا گیا۔
شہر فیصل آباد کی تاریخ صرف ایک صدی پرانی ہے۔ آج سے کم و بیش 100 سال پہلے جھاڑیوں پر مشتمل یہ علاقہ مویشی پالنے والوں کا گڑھ تھا۔ 1892ء میں اسے جھنگ اور گوگیرہ برانچ نامی نہروں سے سیراب کیا جاتا تھا۔ 1895ء میں یہاں پہلا رہائشی علاقہ تعمیر ہوا، جس کا بنیادی مقصد یہاں ایک منڈی قائم کرنا تھا۔ ان دنوں شاہدرہ سے شورکوٹ اور سانگلہ ہل سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مابین واقع اس علاقے کو ساندل بار کہا جاتا تھا۔ یہ علاقہ دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان میں واقع دوآبہ رچنا کا اہم حصہ ہے۔ لائلپور شہر کے قیام سے پہلے یہاں پکا ماڑی نامی قدیم رہائشی علاقہ موجود تھا، جسے آج کل پکی ماڑی کہا جاتا ہے اور وہ موجودہ طارق آباد کے نواح میں واقع ہے۔ یہ علاقہ لوئر چناب کالونی کا مرکز قرار پایا اور بعد ازاں اسے بلدیہ کا درجہ دے دیا گیا۔
موجودہ ضلع فیصل آباد انیسویں صدی کے اوائل میں گوجرانوالہ، جھنگ اور ساہیوال کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ جھنگ سے لاہور جانے والے کارواں یہاں پڑاؤ کرتے۔ اس زمانے کے انگریز سیاح اسے ایک شہر بنانا چاہتے تھے۔ اوائل دور میں اسے چناب کینال کالونی کہا جاتا تھا، جسے بعد میں پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل سر جیمز بی لائل کے نام پر لائلپور کہا جانے لگا۔
1896ء میں گوجرانوالہ، جھنگ اور ساہیوال سے کچھ علاقہ الگ کر کے اس پر مشتمل لائلپور تحصیل قائم ہوئی جسے انتظام و انصرام کے لیے ضلع جھنگ میں شامل کر دیا گیا۔
ء1902 میں اس کی آبادی 4 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔
ء1903 میں گھنٹہ گھر کی تعمیر کا آغاز ہوا اور وہ 1905ء میں مکمل ہوا۔
ء1904 میں ضلع کا درجہ دیا گیا، اس سے قبل یہ ضلع جھنگ کی ایک تحصیل تھا۔
ء1906 میں لائلپور کے ضلعی ہیڈکوارٹر نے باقاعدہ کام شروع کیا۔ یہی وہ دور تھا جب اس کی آبادی سرکلر روڈ سے باہر نکلنے لگی۔
ء1908 میں یہاں پنجاب زرعی کالج اور خالصہ اسکول کا آغاز ہوا، جو بعد ازاں بالترتیب جامعہ زرعیہ فیصل آباد جو زرعی یونیورسٹی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے اور خالصہ کالج کی صورت میں ترقی کر گئے۔ خالصہ کالج آج بھی جڑانوالہ روڈ پر میونسپل ڈگری کالج کے نام سے موجود ہے۔
ء1909 میں ٹاؤن کمیٹی کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا اور ڈپٹی کمشنر کو پہلا چیئرمین قرار دیا گیا۔
ء1910 میں پنجاب کے نہری نظام کی قدیم ترین اور مشہورنہر لوئر چناب تعمیر ہوئی۔
ء1920 میں سرکلر روڈ سے باہر پہلا باقاعدہ رہائشی علاقہ ڈگلس پورہ قائم ہوا۔
ء1930 میں یہاں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔
ء1934 میں مشہورِ زمانہ لائلپور کاٹن ملز قائم ہوئی۔
ء1942 قائد اعظم محمد علی جناح فیصل آباد تشریف لائے اور انہوں نے دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔
مارچ3، 1947ء کو قیام پاکستان کا اصولی فیصلہ اور لائلپور کی پاکستان میں شمولیت بارے خبر ملنے پر لائلپور کے مسلمانوں نے شکرانے کے نوافل ادا کیے اور مٹھایاں بانٹیں۔
ء1947 میں قیامِ پاکستان کے بعد شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا، جس کے باعث شہر کا رقبہ بھی وسعت اختیار کر گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت شہر کا رقبہ صرف 3 مربع میل تھا، جو اب 10 مربع میل سے زیادہ ہو چکا ہے۔ بہت سے نئے رہائشی علاقے بھی قائم ہوئے، جن میں پیپلزکالونی اور غلام محمدآباد جیسے بڑے علاقے بھی شامل ہیں۔
ء1977 میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر لائلپور کو میونسپلٹی سے ترقی دے کر میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا۔
ء1982 میں اسے ضلع فیصل آباد، ضلع جھنگ اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ پر مشتمل ڈویژنل صدر مقام قرار دیا گیا۔ اسی موقع پر اس کا نام لائلپور سے تبدیل کرتے ہوئے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل شہید کے نام پر فیصل آباد رکھ دیا گیا۔
سن 2005 میں یہاں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام لاگو کیا گیا۔
فیصل آباد کی اہم خصوصیت شہر کا مرکز ہے، جو ایک ایسے مستطیل رقبے پر مشتمل ہے، جس کے اندر جمع اور ضرب کی اوپر تلے شکلوں نے اسے 8 حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اس کے درمیان میں، جہاں آ کر آٹھوں سڑکیں آپس میں ملتی ہیں، مشہورِ زمانہ گھنٹہ گھر کھڑا ہے۔ گھنٹہ گھر کے مقام پر ملنے والی آٹھوں سڑکیں شہر کے 8 اہم بازار ہیں، جن کی وجہ سے اسے آٹھ بازاروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ گھنٹہ گھر سے شروع ہو کر بیرونی طرف پھیلتے ہوئے بازار اس جگہ کو برطانوی پرچم کی شکل دیتے ہیں، جو سر جیمزلائل نے اپنے ملک کی یادگار کے طور پر یہاں چھوڑا ہے۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر کا فیصلہ ڈپٹی کمشنرجھنگ کیپٹن بیک (Capt Beke) نے کیا اور اس کا سنگ بنیاد 14 نومبر 1903ء کو سر جیمز لائل نے رکھا۔ جس جگہ کو گھنٹہ گھر کی تعمیر کے لیے منتخب کیا گیا وہاں لائلپور شہر کی تعمیر کے وقت سے ایک کنواں موجود تھا۔ اس کنوئیں کو سرگودھا روڈ پر واقع چک رام دیوالی سے لائی گئی مٹی سے اچھی طرح بھر دیا گیا۔ یونہی گھنٹہ گھر کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر 50 کلومیٹر کی دوری پر واقع سانگلہ ہل نامی پہاڑی سے لایا گیا۔
سن 1906 کے اوائل میں گھنٹہ گھر کی تعمیر کا کام گلاب خان کی زیرنگرانی مکمل ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ گلاب خان کا تعلق اسی خاندان سے تھا، جس نے بھارت میں آگرہ کے مقام پر تاج محل تعمیر کیا تھا۔ گھنٹہ گھر 40 ہزار روپے کی لاگت سے 2 سال کے عرصے میں تعمیر ہوا۔ اس کی تکمیل پر ایک تقریب کا انعقاد ہوا، جس کے مہمانِ خصوصی اس وقت کے مالیاتی کمشنر پنجاب مسٹر لوئیس تھے۔
گھنٹہ گھر میں نصب کرنے کے لیے گھڑی بمبئی سے لائی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ لائلپور کا گھنٹہ گھر ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو 80 سال قبل فوت ہو چکی تھیں۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر سے پہلے شہر کے آٹھوں بازار مکمل ہو چکے تھے۔
برطانوی پرچم یونین جیک پر مبنی فیصل آباد شہر کا نقشہ اس دور کے ماہرتعمیرات ڈیسمونڈ ینگ (Desmond Yong) نے ڈیزائن کیا، جو درحقیقت سرگنگا رام کی تخلیق تھا، جو اس دور کے مشہورآبادیاتی منصوبہ ساز (town planner) تھے۔
آٹھ بازاروں پر مبنی شہر کا کل رقبہ 110 مربع ایکڑ تھا۔ گھنٹہ گھر کے مقام پر باہم جڑنے کے علاوہ یہ آٹھوں بازار گول بازار نامی دائرہ شکل کے حامل بازار کی مدد سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ یونین جیک کی بیرونی مستطیل آٹھوں بازاروں کے آخری سروں کو بھی سرکلر روڈ کی شکل میں آپس میں ملاتی ہے۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر کے وقت اس کے گرد 4 فوارے بنائے گئے تھے، جو کچہری بازار، امیں پور بازار، جھنگ بازار اور کارخانہ بازار کی سمت موجود تھے اور انہیں آٹھوں بازاروں میں سے دیکھا جا سکتا تھا، مگر مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ان میں سے 2 فوارے غائب ہو چکے ہیں۔ اب صرف کچہری بازار اور جھنگ بازار کی سمت والے فوارے قائم ہیں۔
اگرچہ 100 سال گزرنے کے باوجود گھنٹہ گھر کی بیرونی حالت درست حالت میں ہے، تاہم اس کی اندرونی حالت شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اگر اس کی مرمت پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو اہل فیصل آباد زلزلے کے کسی چھوٹے جھٹکے سے ایک اہم تاریخی ورثے سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
گھنٹہ گھر کے گرد قائم 8 بازاروں کے نام اس سمت واقع کسی اہم علاقے کی غمازی کرتے ہیں۔
ریل بازار - سمت بجانب مشرق - اس کی بیرونی سمت ریلوے روڈ واقع ہے، جو ریلوے اسٹیشن کو جا نکلتا ہے۔
کچہری بازار - سمت بجانب شمال مشرق - اس کی بیرونی طرف عدالتیں قائم ہیں۔
چنیوٹ بازار - سمت بجانب شمال - اس طرف ضلع چنیوٹ واقع ہے۔
امیں پور بازار - سمت بجانب شمال مغرب - یہاں سے ایک سڑک امیں پور بنگلہ کی طرف جاتی ہے۔
بھوانہ بازار - سمت بجانب مغرب - اس سمت میں بھوانہ واقع ہے۔
جھنگ بازار - سمت بجانب جنوب مغرب - اس بازار کا رخ جھنگ کی طرف ہے۔
منٹگمری بازار - سمت بجانب جنوب - اس بازار کا نام ساہیوال کے پرانے نام منٹگمری کی وجہ سے رکھا گیا، جو اسی سمت واقع ہے۔
کارخانہ بازار - سمت بجانب جنوب مشرق - اس جانب قدیم دور میں کارخانے قائم تھے، جن میں سے چند ایک اب بھی باقی ہیں۔
گول بازار - یہ بازار مذکورہ بالا آٹھوں بازاروں کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہوئے گزرتا ہے اور اس گول دائرہ نما بازار کے ذریعے وہ سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔۔
قیام پاکستان کے موقع پر انگریزوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ لائلپور کے آٹھ بازاروں کی صورت میں اپنی شناخت، برطانوی پرچم (یونین جیک) ہمیشہ کے لیے اس خطے میں امر کر کے جا رہے ہیں، جبکہ رد عمل میں یہاں کے باسیوں کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ برطانیہ کے پرچم کو صبح و شام اپنے قدموں تلے روندھتے رہیں گے۔
فیصل آباد صوبہ پنجاب (پاکستان) کے شمال مشرقی حصے میں لاہور سے 120 کلومیٹر دور مغرب کی سمت واقع ہے۔ پاکستان کا دار الحکومت اسلام آباد اس سے 360 کلومیٹر دور شمال کی سمت واقع ہے۔ ضلع فیصل آباد 30.35 سے 31.47 شمالی عرض بلد اور 72.73 سے 73.40 مشرقی طول بلد کے درمیان میں سطح سمندر سے 605 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ فیصل آباد کی نواحی اضلاع کے ساتھ کوئی قدرتی حدود موجود نہیں ہیں اور یہ بالعموم میدانی خطے پر مشتمل ہے۔
آبادی کے لحاظ سے فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے اس کی آبادی دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ بے شمار لوگوں نے زندگی کی بہتر سہولیات کی تلاش میں دیہات چھوڑ کر شہر کی طرف ہجرت کی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس وقت شہر کی آبادی 19،86،000 ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 46 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر، 52 فیصد 15 سے 64 سال کی عمر میں اور باقی 2 فیصد 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ آبادی کا تناسب فی مربع کلومیٹر 9،594 ہے۔
سن1961 میں فیصل آباد کی آبادی 4،30،000 تھی، جو 1972ء تک بڑھ کر 8،30،000 کو جا پہنچی اور 1981ء میں یہاں کل 11،00،000 سے زیادہ نفوس آباد تھے۔ 2006ء میں فیصل آباد کی آبادی 45،82،175 نفوس پر مشتمل تھی۔ 47 سالوں میں فیصل آباد کی آبادی میں ایک ہزار گنا اضافہ ہو چکا ہے، جس کی سالانہ شرح 21.3 فیصد ہے۔ آبادی کے اسی تیزی سے بڑھتے ہوئے تناسب نے اسے جلد ہی کراچی اور لاہور کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا شہر بنا دیا۔
فیصل آباد ڈویژن کے چار اضلاع مندرجہ ذیل ہیں۔
ضلع چنیوٹ
ضلع فیصل آباد
ضلع جھنگ
ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ
سال 2005 میں اسے 8 مختلف ٹاؤن میں تقسیم کر دیا گیا۔ ماضی کی تحصیلیں بھی اس نئے نظام کے تحت ٹاؤن کا درجہ پا گئیں۔
مشہورِ زمانہ زرعی یونیورسٹی اور ایوب زرعی تحقیقی ادارہ کی وجہ سے یہ شہر پاکستان بھر میں نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ زرعی یونیورسٹی کا قیام 1908ء میں پنجاب زرعی کالج کے نام سے عمل میں آیا تھا۔ فیصل آباد کو ایک وقت میں سائنسدانوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ یہاں پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر سے زیادہ تعداد میں پی ایچ ڈی سائنس دان موجود ہیں۔ صرف زرعی یونیورسٹی میں 200 سے زیادہ پی ایچ ڈی سائنس دان ہیں۔ اسی طرح ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ آف زرعی بائیوٹیکنالوجی اور نیوکلیئرحیاتیاتی وجینیاتی انجینئری انسٹی ٹیوٹ میں بھی سیکڑوں سائنس دان اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
آزادی کے بعد فیصل آباد پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر بن کر ابھرا ہے۔ اس کی معیشت کا بڑا انحصار کپڑے کی صنعت ہے۔ شہر اور اس کے گردونواح میں بسے دیہات میں ہر طرف ٹیکسٹائل ملز اور پاورلومز کا جال بچھا ہوا ہے۔ صنعتی نیٹ ورک اور پارچہ بافی مصنوعات کی بدولت اسے پاکستان کا مانچسٹر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان میں قائم پارچہ بافی صنعت کا مرکز ہے۔ قیام پاکستان کے وقت فیصل آباد میں صرف 5 صنعتی یونٹ تھے، جو محض ایک سال بعد 1948ء میں 43 کو جا پہنچے۔ اب یہاں ہزاروں کی تعداد میں صنعتی یونٹ قائم ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں 512 بڑے صنعتی یونٹ، 92 انجینئری یونٹ اور 90 کیمیکل یونٹ قائم ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں 12،000 کے قریب گھریلو صنعتیں بھی قائم ہیں، جن میں 60،000 پاور لومز بھی نصب ہیں۔
کپڑے کے علاوہ یہاں آٹا، چینی، گھی، مکھن، سبزیاتی تیل، ادویات، ریشم، صابن، کیمیائی کھادیں، فائبر، کینن مصنوعات، زیورات، گھریلو فرنیچر، رنگائی، کپڑے کی مشینری، ریلوے مرمت، بائیسکل، ہوزری، قالین بافی، نواڑیں، طباعت، اشاعت، زرعی آلات اور لکڑی کی مصنوعات بھی پائی جاتی ہیں۔
پاکستان کا 25 فیصد زرمبادلہ فیصل آباد پیدا کرتا ہے، یوں یہ زرمبادلہ پیدا کرنے والے شہروں میں پاکستان بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کی سب سے قدیم اور ایشیا کی سب سے بڑی اور اکلوتی زرعی یونیورسٹی کی بدولت یہ شہر ایک بڑی زرعی مارکیٹ بن چکا ہے۔ فیصل آباد کی بڑی فصلیں کپاس، گندم، گنا، سبزیاں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں کپڑے اور غلہ کی ہول سیل مارکیٹیں/تھوک منڈیاں قائم ہیں۔ یہاں ٹیکسٹائل یونیورسٹی بھی قائم ہے جو اپنی نوعیت میں پاکستان کی واحد یونیورسٹی ہے اور فیصل آباد کی صنعتی ترقی میں اس یونیورسٹی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
No comments:
Post a Comment